مکاتبت سلیمان |
|
یَااَیُّہَا النَّاسُ ا عْبُدُوْارَبَّکُمُ اَلَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن ۲کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ حج وقربانی : ، وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْویٰ مِنْکُمْ تعظیم شعائر : وَمَنْ یُّعَظَّمِ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبَ، آغاز کتاب: ہُدَی لِّلْمُتَّقِیْن وغیرہ۔تصوف کی ضرورت کیوں پیش آئی اب ضرورت اس بات کی تھی کہ حصول تقویٰ ، حقیقت تقویٰ ، شرائط تقویٰ، طریق حصول تقویٰ، ازالۃ موانع تقویٰ ، تقویٰ فی الایمان باللہ وأسمائہٖ وصفاتہٖ وأنبیائہٖ وکتبہٖ وملائکتہٖ والیوم الآخر اور تقویٰ فی العبادات والمعاملات والأ خلاق وکیفیات القلوب التی ہی الإخلاص فی الدین کو بھی عقائد وفقہ کی طرح مدون کردیاجائے ، چنانچہ محدثین وصلحائے امت نے یہی کیا ہے۔امام ترمذی کی کتاب الزہد والرقاق پڑھیں ۔ امام احمد کی کتاب الزہدا گر نہ مل سکے تو کتاب الصلٰوۃ پڑھی جائے ، تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے ۔ ------------------------------ (گذشتہ صفحہ کا بقیہ )اس کی تفسیر کے لئے دوسری آیت فاتقو اللہ مااستطعتم نازل ہوئی یعنی حسب استطاعت اس کا اہتمام رکھو فی الفور تحصیل درجہ کمال مامور بہٖ نہیں ۔ (بصائر حکیم الامت ص ۶۰۵) نیز حضرت تھانوی ؒ ارشاد فرماتے ہیں : یہ جز ایسا ضروری ہے کہ قرآن شریف میں اس کی تحصیل کاجابجا امر ہے حق تعالیٰ فرماتے ہیں یاَاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُو ااتَّقُوْ اللّٰہ حَقَّ تُقَاتِہٖ یعنی اے ایمان والوں حق تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے ۔ ’’اس میں تکمیل تقویٰ کا امر ہے ، یہی تصوف کاحاصل ہے ، اور مشاہدہ ہے کہ ایسا ڈرنا سوائے صوفیہ کرام اہل اللہ کے کسی کو بھی نصیب نہیں ہے ۔ ان کی بات با ت میں خشیت ہوتی ہے ، بیباکی اور آزادی کہیں نام کو بھی نہیں ہوتی۔ (الکمال فی الدین ص ۱۲۰)