مکاتبت سلیمان |
ساتھ کھینچا ہے، معنویت کے ساتھ اعجاز بیان بھی ملاحظہ ہو: ’’واہ واہ کا مزہ بہت اٹھا چکا، اور اب یہ رنگ دل سے اتر چکا، اب تو آہ آہ کا دور ہے، اور اپنی پچھلی تباہی کا ماتم اور آئندہ کی فکر درپیش ہے۔ یہ آہ آہ (یعنی کثرت استغفار وذکر) اس درجہ بڑھی کہ دار المصنفین کے ایک رفیق نے مجھ سے فرمایا کہ ’’دار المصنفین کے درودیوار پر اس کا اثر چھا گیا تھا۔‘‘ ۱؎تھانہ بھون کے سفر کی مختصر تفصیل علامہ سید سلیمان ندویؒ مولانا عبد الماجد ؒ صاحب کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : ’’کیا آپ تھانہ بھون نہیں جاسکے ، آپ نے کچھ لکھا نہیں ، آپ نے لکھا ہے کہ گو فضل وکمال وزہد واتقا میں نہیں مگر مزاج دانی میں کم نہیں ، مگر یہ ہیچمداں وہیچ میرز تو دونوں جہتوں سے خالی ہے،٭ میرے سفر کی تفصیل کیا، حاضر ہوا، صبح کی نشست میں یاد فرمانے پر حاضر ہوتا رہا، اور بعد ظہر تو اذن عام تھا، مقررہ نشست پر بیٹھتارہا، اور ارشادات عالی کو سنتا رہا، موقع ہوا تو کچھ عرض بھی کیا، شفقتیں علی حالہ رہیں ، پہنچنے پر ایک امر خاص میں استخارہ کے بعد استشارۃ کا فرمان تھا اس کو بجا لایا اور مناسب جواب عرض کیا، جو باستحسان قبول ہوا اور رخصت ہوتے وقت مزید یاد گار شفقت سے نوازا۔ ------------------------------ ٭ کیا حد ہے (اس تواضع وفروتنی کی ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے لکھا تھا کہ فضل وکمال ، زہد وتقویٰ سے تو مجھے کوئی نسبت نہیں ، البتہ حضرت تھانویؒ کی مزاج شناسی میں شاید ان کے کسی خلیفہ سے پیچھے نہ ہوں ۔ دربار مرشد کی لذیز وعزیز حکایت میں اس درجہ اختصار خود ایک دلیل ہے فنائے نفس کی۔عبدالماجد ۱؎ تذکرہ سلیمان ص۱۳۱۔