مکاتبت سلیمان |
|
سید صاحبؒ کا دارالعلوم ندوہ العلماء سے اخیر اخیر تک قلبی تعلق اور وابستگی سیدصاحب بعض خاص اسباب کی بنا پر جولائی ۱۹۴۶ء میں قاضی ریاست امیر دارالعلوم احمدیہ اور دینی امور تعلیم کے مشیر ہوکر ریاست بھوپال چلے گئے اور اکتوبر ۱۹۴۹ء تک وہیں رہے ، انہوں نے بھوپال سے دارالعلوم کے ساتھ تعلق قائم رکھا ، دارالعلوم کی حیثیت ایک فرزند کی سی تھی اور وہ اس کی یاد کو کسی وقت بھی دل سے جدا نہ کرسکتے تھے ، شفقت ناموں سے کارکنان ندوہ کا حوصلہ بڑھاتے اور تعلیمی رہنمائی فرماتے یہاں پر بھوپال کا ایک مکتوب ……(کا ایک اقتباس) درج کیاجاتا ہے ۔ عزیز گرامی وفقکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم وحمۃ اللہ وبرکاتہ‘ ندوۃ کے متعلق میرے جذبات وہی ہیں جو آپ کے ہیں میری تو ہمیشہ سے یہی رائے ہے کہ آپ اس بار گراں کو اپنے سر پر اٹھا لیں ۔ جواں ہو تم لب بام آچکا ہے آفتاب اپنا میں ہر حال میں آپ کی مدد کروں گا اور اگر کہیں تو کچھ قیام بھی کروں بشرطیکہ آپ کے خیالات کے تائید میں دوسرے اساتذہ بھی شریک ہوں ۔ والسلام سید سلیمان ۱۸؍ اپریل ۱۹۴۸ء سید صاحب نے یہ سمجھ کرکہ بھوپال میں رہ کر وہ دارالعلوم کی تعلیمی نگرانی پوری طرح نہیں کر سکیں گے مجھے نائب معتمد بنائے جانے کی تحریک کی جس کو مجلس دارالعلوم نے ۷؍جنوری ۱۹۴۹ء کو منظور کیا اور میں نے ان کی رہنمائی اور سرپرستی میں کام شروع کیا ، اہم امور میں ان کی طرف رجوع کرتا تھا ، اور وہ بھی ازراہ شفقت بزرگانہ پورا اعتماد فرماتے تھے