مکاتبت سلیمان |
|
عالی ہمتی اور قوت عمل کا ثبوت ہے ۔ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَاعَاہَدُواللّٰہ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضیٰ نَحْبَہ‘ وَمِنْہُمْ مَنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْ اتَبْدِیْلاَ۔ ان مسلسل تاریخی شہادتوں کی موجودگی میں یہ کہنا کہاں تک صحیح ہوگا کہ تعطل وبے عملی حالات کے مقابلہ میں سپر اندازی اور پسپانی تصوف کے لوازم میں سے ہے، اگر اس دعوے کے ثبوت میں چند متصوفین اور اصحاب طریقت کی مثالیں ہیں تو اس کے خلاف بڑی تعداد میں ان آئمہ فن اور شیوخ طریقت کی مثالیں ہیں جو اپنے مقام اور رسوخ فی الطریقہ میں بھی اول الذکر اصحاب سے بڑھے ہوئے ہیں ۔ اگر تصوف اپنی صحیح روح وسلوک راہ بنوت کے مطابق ہو اور یقین اور محبت پیدا ہونے کا باعث ہو (جو اس کے اہم ترین مقاصد ونتائج ہیں ) تو اس سے قوت عمل ، جذبہ جہاد ، عالی ہمتی، جفاکشی ، شوق شہادت پیدا ہونالازمی ہے جب محبت الٰہی کا چشمہ دل سے ابلے گا تو روئیں روئیں سے یہ صدا بلند ہوگی۔ اے آنکہ زنی دم از محبت از ہستی خویشتن پرہیز برخیزدبہ تیغ تیز بنشیں یااز رہ راہ دوست برخیز ۱؎غلط فہمی کا ازالہ اور اشکال کا جواب تذکرہ سلیمان کے مصنف تحریر فرماتے ہیں : ( علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کے حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے گہرا ربط ہونے کے )برس ڈیڑھ برس بعد پھر حضرت والا کے اس حال میں تغیر آگیا، وہی تغیر جس نے امام غزالی کو ترک تصنیف وتالیف کے بعد احیاء العلوم کی ترتیب وتدوین پر مجبور کردیا تھا مگر آج تک بعض لوگ نادانستہ طورپر اسی کیفیت اور اسی حال کو حضرت والا ؒ کی دارالمصنفین سے مفارقت کا سبب بتاتے ہیں جو واقعہ کے خلاف ہے۔۲؎ ------------------------------ ۱؎تصوف کیا ہے ، مضمون حضرت مولانا سید ابوالحسن علیہ ندوی ص۱۱۲وص۱۳۰ ۲؎ تذکرہ سلیمان ص۱۳۱۔