مکاتبت سلیمان |
|
علامہ سید سلیمان ندویؒ کا دوسرا مکتوب اپنے مسلک کا اظہار اور اصلاح باطن کے سلسلہ میں حضرت تھانویؒ کی خدمت میں عریضہ حضرت ہادی ٔ طریقت متع اللہ المسلمین بطول بقائکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ والانامہ جو لطف وعنایت سے بھرا ہوا تھا، ورود فرما ہوا، اس سے ایک پریشان حال ومتشتت البال کی سکینت ہوئی۔ مولانا ! میں آپ کی دعاء ودعوت کا بہترین مستحق ہوں ، مسائل علمی کی الجھن سے نجات کا خواستگار نہیں بلکہ روح کی الجھن سے نجات کے لئے دعاء وہمت کا طالب ہوں ۔ میں نے اعتزال سے لے کر سلفیت تک بمدارج ترقی کی ہے، عقائد میں امام مالکؒ کے اس اصول کا پیرو ہوں : ’’الاستوی معلوم والکیفیۃ مجہول والایمان بہ واجب والسوال عنہ بدعۃ‘‘۔ ۱؎ سیرۃ نبوی علی صاحبھاالصلوۃ کی تالیف وتدوین میں خواہ مجھ سے غلطیاں ہوئی ہوں مگر اس مصروفیت نے ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جذبۂ محبت پیدا کردیا ہے، وللہ الحمد، فقہ میں متاخرین کا متبع نہیں ، مگر اہل حدیث بالمعنی المتعارف نہیں ہوں ، ائمہ ر حمہم اللہ تعالی کا دل سے ادب کرتا ہوں اور کسی رائے میں کلیۃ ان سے عدول حق نہیں سمجھتا۔ میرا خاندان صوبۂ بہار میں علم ظاہر وباطن کا جامع رہا ہے، والد مرحوم ابوالعلائی ------------------------------ ۱ ؎ یعنی استویٰ معلوم ہے (کیوں کہ قرآن میں مذکور ہے) مگر اس کی کیفیت (کہ کیونکرہے) نامعلوم ہے، اس پر ایمان واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال بدعت ہے۔