مکاتبت سلیمان |
فصل۳ تصوف نے سید صاحب ؒ کو کیا علمی کاموں سے معطل اور حالات سے شکستہ خوردبنادیا تھا ؟ تمہید مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ’’دنیا میں بہت سی چیزیں بعض خاص اسباب کی بنا پر بغیر علمی تنقید وتحقیق کے تسلیم کرلی جاتی ہیں اور ان کو ایسی شہرت ومقبولیت حاصل ہوجاتی ہے کہ اگر چہ ان کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوتی مگر خواص بھی ان کو زبان وقلم سے بے تکلف دہرانے لگتے ہیں ۔ انہیں مشہورات بے اصل میں یہ بات بھی ہے کہ تصوف ، تعطل وبے عملی ، حالات سے شکست خورد گی اور میدان جدوجہد سے فرار کا نام ہے۔ لیکن عقلی ونفسیاتی طور پر بھی اور عملی اور تاریخی حیثیت سے بھی ہمیں اس دعوے کے خلاف مسلسل طریقہ پر داخلی وخارجی شہادتیں ملتی ہیں ۔ ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ میں تزکیہ واصلاح باطن کے عنوان کے ماتحت خاکسار راقم نے حسب ذیل الفاظ لکھے تھے ، جس میں آج بھی تبدیلی کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی، اور اس حقیقت پر پہلے سے زیادہ یقین پیدا ہوگیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرفروشی وجاں بازی ، جہاد وقربانی اور تجدید وانقلاب وفتح وتسخیر کے لئے جس روحانی وقلبی قوت، جس وجاہت وشخصیت ، جس اخلاص وللہیت ، جس جذب وکشش اور جس حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہے وہ بسا او قات روحانی ترقی ، صفائی باطن، تہذیب نفس ، ریاضت وعبادت کے بغیر نہیں پیدا ہوتی اس