مکاتبت سلیمان |
(۴) علوم الحدیث حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو علوم الحدیث میں جو مہارت حاصل تھی، اس کی شہادت ان کے مواعظ ورسائل وتالیفات کے ہزاروں صفحات دے رہے ہیں ، جن میں بے شمار احادیث کے حوالے، اشارے اور تلخیصات، ان کے مشکلات کی شرح، ان کے دقیق مطالب کے حل اور ان کے نکات ولطائف کا بیان ہے، خصوصیت کے ساتھ شیخ کے مواعظ میں جو زبانی تقریریں ہیں بر محل حدیثوں کے حوالے اور اکثر احادیث کے بعینہٖ الفاظ مع ان کی تخریجات اور کتابوں کے حوالوں کے اس کثرت سے ان میں ہیں کہ ان کو دیکھ کر کسی انصاف پسند کو ان کے حافظ الحدیث ہونے میں شبہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد ان کی ان تصانیف کو لیجئے جو گو فقہ وفتاویٰ اور احکام ومسائل یا اصلاح رسوم اور سلوک میں ہیں ، لیکن ان کی بنیاد احادیث پر ہے، ان میں احادیث کے حوالے دلائل کی مضبوطی اور صحت بیان کی تائید وشہادت کے لئے آئے ہیں ، جو مؤلف کے علم ومعرفت پر دلیل قاطع ہیں ۔ حضرت حکیم الامت کو فن سلوک کی تجدید کی جو توفیق عنایت ہوئی تھی، اس کا ایک مبارک اثر یہ ہے کہ حضرت نے احادیث کی کتابوں سے ان تمام حدیثوں کو یکجا فرمایا جن میں اس فن شریف کے مسائل متفرق تھے، اگر چہ بعض حضرات محدثین نے اپنی کتابوں میں بعض ابواب زہد ورقاق کا تذکرہ کیا ہے، تاہم ان کی حیثیت فن کی نہیں ، قدماء میں سے صرف ایک بزرگ حضرت امام عبد اللہ بن مبارکؒ المتوفی ۱۸۱ ھ کا نام ہم کو معلوم ہے، جنہوں نے کتاب الزہد والرقاق کے نام سے مستقل تصنیف فرمائی ہے، مگر یہ ہیچمدان اس کی زیارت سے محروم رہا ہے، اس لئے اس کی نسبت کچھ عرض نہیں کرسکتا ، مگر قیاس یہ ہے کہ وہ ابن ابی الدنیا کی کتاب کی طرح زہد ورقاق اور مذمت دنیا کے مضامین