مکاتبت سلیمان |
|
تھے عربوں نے بھی ان کا لوہا مان لیا وہ تھا نہ بھون گئے اور پھر اس طرح اپنے کو ڈال دیا کہ حضرت تھانویؒ کو یہ کہناپڑا ؎ ازسلیمان گیر اخلاص عمل ٭ داں تو ندوی رامنزہ ازدغل ۱؎حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی وفات پر سید صاحب ؒ کی اضطرابی کیفیت سید صاحب کا تعلق اپنے شیخ سے اور شیخ کی شفقت ان کے حال پر برابر بڑھتی جارہی تھی کہ ۱۶؍ رجب ۱۳۶۲ھ (جولائی ۱۹۴۳ء )میں مولانا تھانویؒ نے سفر آخرت اختیار کیا، سید صاحب کو یہ خبر سنتے ہی لکھنؤ کا سفر پیش آیا ، اس وقت ان پر کچھ عجیب ازخودرفتگی اور حزن وقلق کی کیفیت طاری تھی ، حکمت الٰہی کہ انہیں دنوں مولانا محمد الیاس صاحب ؒ بھی لکھنؤ تشریف لے آئے، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب اور ایک تبلیغی جماعت بھی اس وقت ندوہ میں ہی مقیم تھی دونوں کا قیام ندوہ کے مہمان خانہ میں تھا ۲؎ ، مولانا الیاس صاحب ؒ کی اس صحبت اور ان کے تبلیغی جلسوں کی شرکت نے ان کے زخمی ------------------------------ ۱؎ تعمیر حیات ۱۰ و۲۵ فروری ۷۶ء ص ۶ ۲؎ حضرت سید صاحب مولانا مسعود عالم ندوی کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : تھانہ بھون کے اسٹیشن پر پہلی دفعہ مولانا الیاس صاحب سے ملاقات ہوئی اور گھنٹہ بھر ریل پر ساتھ رہا، پھر بھوپال سے واپس آکر دارالعلوم ندوہ میں ان کی عشرہ تک ملاقات رہی، خوب باتیں ہوئیں ، پچاس ساٹھ مبلغوں کے ساتھ ایک عشرہ دارالعلوم میں قیام رہا۔اس اثنا ء میں نے انہیں جانا اور انہوں نے مجھے۔ساتھ کانپور گیا اور وہاں کے اور لکھنؤ کے مجمعوں میں تقریں کیں ، پسندآئیں ، ان کے طریق کار کو دیکھا ، انشاء اللہ ندوہ اودھ میں ان کی دعوت کا مرکز بنے گا۔ مورخہ ۸اگست ۱۹۴۳ء (مکاتیب سیدسلیمان ص۱۴۷)