مکاتبت سلیمان |
|
سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ فلسفیانہ تصوف کے قائل نہ تھے حضرت مولانا اویس صاحب ندوی ؒ تحریر فرماتے ہیں : فلسفیانہ تصوف کسے کہتے ہیں ؟ اس کو حضرت الاستاذ علامہ سید سلیمان صاحب ندوی مدظلہ‘ کی زبان سے سنئے : ’’ فلسفیانہ تصوف سے مقصود الٰہیات کے متعلق حکیمانہ خیالات رکھنا ، اور فلاسفہ کی طرح خشک زندگی اختیار کرکے ان کی اخلاقی تعلیمات پر عمل کرنا ہے ، اس فلسفیانہ تصوف کا ماخذیونان کا اشراقی اور اسکندریہ کا افلاطونی اسکول ہونا بعض قدیم مسلمان حکماء کے نزدیک بھی مسلم تھا ‘‘۔ ------------------------------ اس کی ایسی مثال ہے کہ نور مہتاب نور آفتاب سے حاصل ہے ۔ اگر اس نور ظلی کا اعتبار نہ کیجئے تو صرف آفتاب کو منور اور مہتاب کو تاریک کہا جائے گا۔ یہ مثال وحدۃ الوجود کی ہے، اور اگر اس کا نور بھی اعتبار کیجئے کہ آخراس کے کچھ تو آثار خاصہ ہیں ، گووقت ظہور نور آفتاب کے وہ بالکل مسلوب النور ہوجائے یہ مثال وحد ۃ الشہود کی ہے ۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں یہ اختلاف لفظی ہے مآل دنوں کا ایک ہے ، اور چونکہ اصل وظل میں نہایت قوی تعلق ہوتا ہے اس کو اصطلاح صوفیاء میں عینیت سے تعبیر کرتے ہیں اور عینیت کے یہ معنی نہیں کہ دونوں ایک ہوگئے ، یہ تو صریح کفر ہے ۔ چنانچہ وہی صوفیائے محققین اس عینیت کے ساتھ غیریت کے بھی قائل ہیں ۔ پس یہ عینیت اصطلاحی ہے نہ کہ لغوی۔ مسئلہ کی تحقیق تو اسی قدر ہے اس سے زیادہ اگر کسی کے کلام منثور یا منظوم میں پایا جائے تو وہ کلام حالت سکر کا ہے اور نہ قابل ملامت ہے نہ لائق تقلید۔ (بصائر حکیم الامت ص۲۴۵) غضب ہے کہ بہت سے جہلاء وحدۃ الوجود کے معنی یہی سمجھے ہوئے ہیں کہ ہر چیز خدا ہے حتی ٰکہ میں نے ایک مولوی صاحب کو درس میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ نعوذ باللہ واجب الوجود کلی طبعی ہے جزئی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ کلی طبعی کا وجود جدا گا نہ نہیں ہوتا بلکہ افراد کے ضمن میں ہوتا ہے تو نعوذ باللہ خدا کا وجود مستقل کوئی نہیں بلکہ موجودات کے ضمن ہی میں ہے، یہ وحدۃ الوجود نہیں بلکہ کفر صریح ہے، وحدۃ الوجود تو یہ ہے کہ اپنی ہستی کو مٹا کر خداکی ہستی کا مشاہدہ کرے نہ یہ کہ خدا کی ہستی کو مٹا کر اپنی ہستی کا مشاہدہ کرے۔ (وعظ المرابطہ ملحقہ حقیقت تصوف وتقویٰ ص ۸۹)