مکاتبت سلیمان |
|
جذباتِ شوق کا وفور ایک اور خاص کیفیت جو ارادت کے تعلق کے بعد ظاہر ہوئی وہ جذبات شوق کا وفور تھا جو جب سینے سے اٹھ کر زبان پر آتے شعر بن کر نکلتے تھے، چنانچہ خود صاحب کلام کو حیرت ہے فرماتے ہیں : نغمہ اللہ سے طبع حزیں موزوں ہوئی جو کبھی گاتی نہ تھی وہ وجد میں گانے لگی اور پھر فرماتے ہیں : فیض ہے یہ کس ولی وقت کا اب مرا جو شعر ہے الہام ہے یہ بھی حضرت والا ؒ کی زبان صدق سے سنا ہے کہ : میری اس دور کی شاعری کا آغاز حضرت والا (تھانوی قدس سرہٗ) کے تعلق سے ہوا اور انجام بھی حضرت کی رحلت ہی پر ہوگیا، بعد میں مشکل سے دوچار غزلیں ہوئی ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت کی موجودگی میں جذبات کا وفور رہتا تھا جو پھر باقی نہ رہا۔ اسی حقیقت کی ترجمانی ان اشعار میں بھی فرمائی ہے جو شعر بھی سپرد قلم کر رہا ہوں میں سب وارداتِ عشق رقم کررہا ہوں میں دیوانہ گان عشق کو دے کر صلائے عام آراستہ یہ مجلسِ جم کر رہا ہوں میں اسی لئے یہ انتباہ بھی کردیا ہے کہ ؎ سمجھیں مرے کلام کو جو ہوش مند ہیں مستی میری یہ بادۂ انگور کی نہیں ۱؎ ------------------------------ ۱ ؎ تذکرۂ سلیمان ص:۱۳۵۔