مکاتبت سلیمان |
|
صاحب غوری ریٹائر انسپکٹر آف اسکولس یوپی،جو حضرت کے خلیفہ خاص ،محرم خاص بلکہ خادم خاص ہیں )نے فرمایا کہ حضرت کی ہمیشہ کی عادت یہی ہے ،اس ضعف و اضمحلال کی حالت میں بھی مجلس کا وقار ،نظم و ضبط اوراصول و قواعد کی پابندی بدستور جاری تھی اورا خیر لمحۂ حیات تک اس میں فرق نہیں آیا۔حضرت تھانویؒ کا ایک عطیہ اور سید صاحب سے اہم گذارش عصر کے وقت مجلس برخاست ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ کھانے کے الگ انتظام کی ضرورت نہیں ،چندروز کے مہمانوں کے لئے اس کی ضرورت نہیں ،بڑے گھر سے کھانا جائے گا اور ایک خادم خاص کو اس کی ہدایت فرمائی ،اس ناسزاوار کے لئے تو یہ خیرو برکت کاسامان تھا ،یہ بھی ارشاد ہوا کہ جب چاہو اور جس وقت چاہوآسکتے ہو کوئی قید نہیں ،یہاں سے اٹھ کر جب خانقاہ پہنچا تو بعد نماز حضرت والا کی طرف سے حضرت کی آخری تصنیف ’’بوادر النوادر‘‘ کاایک نسخہ مولانا جمیل احمد صاحب نے ہدیہ لاکر عنایت فرمایا اور یہ ارشاد سامی پہنچایا کہ میرے مضامین سے اقتباسات جمع کرکے شائع کرو ،اس حکم کو اپنی ہدایت و رہنمائی کانسخہ سمجھ کر اپنی سعادت کا اظہار کیا،دوسرے دن حاضری کے موقع پر حضرت نے اپنی زبان مبارک سے خود یہ ارشاد فرمانا چاہا تو خاکسار نے حضرت کی زحمت تکلم کے خیال سے عرض کیا کہ یہ ارشاد مبارک مولانا جمیل صاحب کے ذریعہ پہنچ چکا ہے، مگر وہاں سے اٹھنے کے بعد مولانا جمیل صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ حضرت کا مقصود کیا ہے، یعنی اس کتاب بوادر سے اقتباس یا عام کتابوں سے ،انہوں نے فرمایا اس کو میں نے اچھی طرح خود بھی نہیں سمجھا،بعد کی حاضری میں موقع پاکر میں نے تفصیل چاہی تو ارشاد ہوا نہیں ،عام کتابوں میں جو مضمون مفید نظر آئیں ،ان کو یکجا کر لیا کرو۔