مکاتبت سلیمان |
لیکن ان کی ہمت عالی اور ان کا طائر بلند پرواز خود اس دولت بیدار کا طالب تھا جس کو حدیث میں احسان اور قرآن مجید میں تزکیہ کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے، اور جس طرح ان کو علم وادب کی وادی کو کامیابی وفتح مندی کے ساتھ طے کرنے کے لئے علامہ شبلی جیسا خضر طریق ملا تھا، احسان اور تزکیہ کی وادی کے لئے بھی ایک خضر راہ اور ایک مرد حق آگاہ کی تلاش تھی، اس سلسلہ میں ان کی کہانی اور ان کے واردات قلبی، حجۃ الاسلام امام غزالی کی کہانی اور واردات قلبی سے بہت مشابہ نظر آتے ہیں کہ ان کو علم وشہرت کے بام عروج پر پہونچنے کے بعد اپنی علمی زندگی اور ذہنی کد وکاوش سراب نظر آنے لگی اور علم ویقین کے چشمۂ حیوان کی تلاش میں نکلے اور سیراب وکامیاب واپس آئے۔ یہ خضر راہ ان کو حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی شکل میں مل گیا اور چونکہ عراقی کی طرح ان کاباطن اس حرارت وحلاوت کو قبول کرنے کے لئے بالکل تیار تھا، اس لئے انہوں نے سالوں کی راہ مہینوں میں ، اور مہینوں کی راہ ہفتوں میں اور دنوں میں طے کی اور شیخ وقت کے اعتماد واستناد سے بہت جلد سرفراز اور ان کے خلیفہ مجاز ہوئے۔ ۱؎سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی حسن طلب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (بلند پایہ کا مصنف) اپنے علمی وادبی فتوحات پر قانع اور خالص تصنیفی زندگی اور علمی تحقیقات پر راضی نہیں بلکہ زبان ہوشمند ، ذہن ارجمند اور فکر بلند کے ساتھ دل درد مند کی دولت سے فیضیاب ہے اور اپنے زمانے کے ایک مسلم الثبوت شیخ (مولانا اشرف علی تھانویؒ) کی نسبت وصحبت سے اس شعبہ کی بھی تکمیل چاہتا ہے۔ اور بالآخر قلیل عرصہ میں ان کے اعتماد اور استناد سے مشرف ہوتا ہے۔ ۲؎ ہمارے اس دور مادیت والحاد میں امام غزالی کی اس علوئے ہمت اور حسن طلب ------------------------------ ۱؎ پرانے چراغ۔ ص:۳۷ ۲؎ ایضاً ۵۶