مکاتبت سلیمان |
|
زمانہ میں اگر چہ بولے گئے ہیں ، اور یہ عربی زبان کے لفظ بھی ہیں ، مگر ان کے اصطلاحی معنی ان سے مختلف ہیں ۔یہ لفظ بدعت اور نیا ہے لیکن اس کی حقیقت بدعت نہیں یہی حال تصوف اور صوفی کا ہے، خواہ یہ لفظ صوف سے نکلا ہو،پشمینہ پوشی سے جو زہد کی علامت تھی ، یافلسفہ کے لفظ کی طرح یہ یونانی تھیاسونی سے آیاہو ، لفظ کی بحث نہیں تاہم یہ لفظ بدعت ہے ،اور باہر سے آیا ہے مگر اس کی حقیقت بدعت نہیں ہے قرآن پاک کی اصطلاح میں اس کو اخلاص کہئے اور حدیث کی رو سے اس کو احسان کا نام دیجئے ، اور کام کے لحاظ سے اس کو اخلاص فی الدین اور تقویٰ کے حصول کا فن کہئے ، ولا مشاحۃ فی الاصطلاح۔تصوف کی جدید اصطلاحات سے دھوکہ نہیں ہونا چاہئے یہ امربے شبہ صحیح ہے کہ جس طرح دوسرے فنون میں غیر جگہوں سے چیزیں آکر شامل ہوئی ہیں ، مثلاً فقہ کے لئے اصول فقہ تیار ہوگیا ، اور قیاس نے ایک فنی صورت اختیار کرلی ، علم کلام وعقائد میں فلسفہ داخل ہوگیا ، اور منطقی و فلسفی دلائل وحجج وبراہین کا شیوع ہوا، اسی طرح اس علم احسان واخلاص میں بھی بعض باتیں باہر سے آگئی ہیں ، جن کو خواہ تدابیر کے درجہ میں لا کر مان لیا جائے ، یا ان سے بھی احتیاطاً پرہیز برتا جائے دونوں پہلوہوسکتے ہیں ، مگر اس سے اصل فن پر کچھ اثر نہیں پڑسکتا ، اس فن کی جو اصطلاحیں نئی ہیں وہ افہام وتفہیم کی سہولت کی خاطر اختیار کی گئی ہیں ان سے بھڑکنا حماقت ہے، جب کوئی چیز فن بن جاتی ہے تو اصطلاحات سے چارہ نہیں ہوسکتا ۔