مکاتبت سلیمان |
|
آخری حالات میری حاضری ۷؍جولائی سے ۱۱؍جولائی کی دوپہرتک رہی ،اشتہاء کا سقوط اور ضعف کا استیلاء اپنی حالت پر رہا ،دست پانچ،چھ،سات تک آتے رہے ،مزید یہ کہ ہاتھوں اور پاؤں پر ورم تھا ،ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کے ناخنوں میں نیلا ہٹ نمودار ہوگئی تھی ،جو باعث تشویش تھی، دوروز کے بعد اس میں کمی آگئی ،مگر وفات کے چندروز پیش تر و ہ پھر عود کر آئی تھی ۔ خدمت اور خاص کر رات کے وقت نوبت بہ نوبت جاگ کر خدمت کی سعادت خدام خاص کی قسمت میں آئی ،جن میں پہلا درجہ خواجہ صاحب کاہے ،ان کے علاوہ مولانا جمیل احمد صاحب،بند ُومیاں (ملازم نواب صاحب باغپت)اور مولوی شبلی صاحب جونپوری نے اس خدمت خاص کی سعادت اخیر تک پائی ،بعد کو مولانا ظفر احمدصاحب بھی ڈھاکہ سے آکر اس میں شامل ہوگئے۔ حاضری کے دوسرے یا تیسرے دن استفسار ہوا کہ کھانا تو مزاج کے موافق ہوتا ہے، عرض کی کہ بالکل مطابق ہے ،کس تواضع اور کس شفقت اور کس بلاغت سے ارشاد ہواکہ میں معافی کا خواستگا ر نہیں مستحق ہوں ،اس نکتہ پر اہل ذوق نے تحسین کی سعادت پائی کہ ضعف ونقاہت کے اس عالم میں بھی دل و دماغ ناقصوں کی تربیت میں مصروف ہیں اور اکرام ضیف کا نمونہ پیش کیا جارہاہے۔ دوتین واقعے ذکر کے قابل ہیں ،اسی اثنائے حاضری میں بنگال سے ایک معتقد بااخلاص کا خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جب نبی کی وفات کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اختیار دیتے ہیں کہ خواہ وہ دنیا میں رہنا پسند کرے یا اللہ تعالیٰ کے یہاں جانا ،یہ تمہید لکھ کر اس میں تھاکہ میرے اعتقاد میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام