مکاتبت سلیمان |
سید صاحب نے اس کے جواب میں جومکتوب تحریر فرمایا وہ یہاں درج کیاجاتا ہے۔ ’’بھوپال ۲۴؍جنوری ۱۹۵۰ء عزیزی وفقکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘ عیادت نامہ ملا ، شکرگزارہوں ، الحمدللہ بخیر وعافیت ہوں ، ضعف بھی دور ہورہا ہے۔ میری شرکت کو جو جماعت تبلیغ کے کاموں میں حجاز میں ہوئی ہے ، آپ صاحبوں نے بڑی اہمیت دی ، مولانا یوسف صاحب اور مولانا زکریا صاحب تک نے اس کے لئے شکریے اداکئے ، اور دعائیں دیں ، دعائیں تو ٹھیک ہیں کہ میں ان کا محتاج(ہوں ) مگر شکریہ کس بات کا ؟ کوئی نماز پڑھے تو اس کا شکریہ اداکیا جائیگا؟ میں نے اس لئے لکھا کہ بعض صاحبوں نے ایسا کیاہے۔۱؎ریاست بھوپال میں دینی فیوض وبرکات مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی تحریر فرماتے ہیں : پھر خود مولانا سید سلیمان ندویؒ نے سلطان جہاں بیگم صاحبہ کے فرزند ارجمند نواب حمیداللہ خاں والی بھوپال کی خواہش ودرخواست پر قاضی القضاۃ ریاست ، جامعہ احمدیہ کے امیر اور دینی تعلیم اور مذہبی امور کے صدر کا عہدہ قبول فرمایا ، جو اس ریاست کے لئے بڑے امتیاز واعزاز کا باعث تھا ، مولانا سید سلیمان ندویؒ جولائی ۱۹۴۶ء میں بھوپال تشریف لائے اور اکتوبر ۱۹۴۹ء تک تقریباً چار سال رہ کراس مسلم ریاست کے (جو کبھی شیراز ویمن کی ہمسری کرچکی تھی، اورہندوستان ہی نہیں عالم اسلام کے متعدد چیدہ وبرگزیدہ مشائخ وعلماء اور فقہا ومحدثین کا مرکز ر ہ چکی تھی )علمی اور دینی حلقوں کو اپنے نادرہ روزگار علمی تجربات ، دینی رہنمائی اور قیمتی صحبتوں اور مجالس سے فیض پہنچایا ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ پرانے چراغ ص۴۸ ۲؎ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کی علمی ودینی خدمات پر ایک نظرص۱۶مضمون حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔