مکاتبت سلیمان |
یہ لفظ بدعت ہے ،اور باہر سے آیا ہے مگر اس کی حقیقت بدعت نہیں ہے قرآن پاک کی اصطلاح میں اس کو اخلاص کہئے اور حدیث کی رو سے اس کو احسان کا نام دیجئے ، اور کام کے لحاظ سے اس کو اخلاص فی الدین اور تقویٰ کے حصول کا فن کہئے ، ولا مشاحۃ فی الا اصطلاح۔۱؎ ابھی اتفاق سے مجموعہ احادیث نجدیہ نظرسے گذرا جس میں امام ابن حنبل کی ’’کتاب الصلوۃ‘‘ اور ابن قیم کی الوابل الصیب فی الکلم الطیب دوکتابیں بھی ہیں ۔ ان دوبزرگوں نے جو کچھ کہاہے اس سے زیادہ تصوف حقیقی سے کچھ اور مراد نہیں ۔ اگر کچھ رموز واشارات ان کی تائید میں کسی نے کہہ دیئے ہیں تو وہ حواشی ہیں ، باقی شرکیات وبدعیات ، تو ان کا ذکر ہی کیا ۔ لیکن جس طرح مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام پر آج حکم نہیں لگایا جاسکتا ، ایسے ہی بازاری دکان دار رنگے ہوئے صوفیوں کو دیکھ کر تصوف کو بدنام نہ کیجئے ۲؎ سلوک کے متعلق آپ نے بدعت وسنت کی جو بحث نکالی ہے یہ محض خشک مزاج اہل حدیث کا شیوہ ہے ۔ آپ ابن قیم مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ ، مولوی سید احمد بریلوی ،شاہ اسماعیل شہید وغیرہ کوکیا کہیں گے؟ کیا وہ بھی متبعین بدعت میں تھے ، صرط مستقیم ہی کو غورسے پڑھ لیجئے۔۳؎چکھے بغیر آم کا ذائقہ بیان نہیں کیا جاسکتا پروفیسر خلیق احمد نظامی صاحب تحریر فرماتے ہیں : تصوف پر مولانا سید سلیمان ندویؒ کے قلم سے کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے بعض مضامین میں اشارے ضرور ملتے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ تصوف پر لکھنے کا جب ------------------------------ ۱؎ معارف اپریل ۱۹۴۴ء ۲؎ مکاتیب سلیمان ص۱۶۶ ۳؎ حوالہ مذکورص ۱۵۰۔