مکاتبت سلیمان |
|
حضرت والا رحمہ اللہ تعالی کے ایک وعظ الدنیا والآخرۃ میں حسب ذیل مضمون نظر پڑا، اس کی نقل مرسل ہے تاکہ میرے گذشتہ عریضہ کی توثیق ہوسکے۔ فرماتے ہیں : ’’بعض صفات جو واجب وممکن ہیں بظاہر مشترک ہیں ، جیسے علم وقدرت وغیرہما ان سے دھوکا نہ کھانا چاہئے، کہ صفات ممکن کا تو ادراک بالکنہ ممکن ہے اور بوجہ اشتراک کے وہی حقیقت ہوگی صفات واجب کی، بس صفات واجب کا ادراک بالکنہ ممکن ہوگیا، جواب یہ ہے کہ یہ اشتراک باعتبار حقیقت کے نہیں محض با عتبار اسم کے ہے اور حقیقت دونوں کی جدا جدا ہے‘‘۔ ۱؎ایک سوال کے جواب میں حضرت تھانویؒ کی تحقیق وتعلیم کا ذکر ایک مسترشد کے سوال کے جواب میں حضرت سید صاحب تحریر فرماتے ہیں : ہمارے حضرت (مولانا تھانوی ) کی تحقیق یہ ہے کہ مبتدی نماز میں یکسوئی کے لئے لفظ اللہ کی طرف اور متوسط معنی کی طرف اور منتہی ذات بحت کی طرف توجہ کرے۔۲؎ مولانا عبدالماجد صاحب دریا آبادی کے ایک خط کے جواب میں حضرت سید صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں ۔ ذوق نے کہا تھا ع ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بہت قدرِ سخن کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر معلوم نہیں مرحوم ذوق اگر آج زندہ ہوتے تو کیا کہتے، آپ نے اقبالؒ کے جس مصرع سے جو تسلی پائی ہے، میں نے وہ حضرت مولانا رحمۃ اللہ کی اس تعلیم سے پائی کہ’’ امور اختیاری میں کمی نہ کرے، اور امور غیر اختیاری کے درپے نہ ہو‘‘۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ مکتوبات سلیمان ، ص: ۲۰۲-۲۰۴ ۲؎ سلوک سلیمانی ص۳۱۰ ج۲ ۳؎مکتوبات سلیمان ، ص: ۲۱۱۔