مکاتبت سلیمان |
|
بار بار میرا دل جب زمانہ کے فتن وحوادث سے گھبرا اٹھتا ہے اور بے اختیار کسی سکینت وطمانیت کی تلاش ہوتی ہے تو خانقاہ امدادیہ کی یاد آتی ہے لیکن ڈر تھا کہ معلوم نہیں کہ اجنبیت وبیگانگی سے میرے متعلق کیا کیا اب تک پہنچا ہو اور آپ مجھے تخاطب کا اہل بھی سمجھیں یا نہیں ۔ میں تو اس رسالۂ استفتاء کا ممنون ہوں کہ اس اجنبیت وبے گانگی کی جگہ اس کی بدولت انسیت ویکجہتی کی صورت پیدا ہوئی، اب میں اس کشمکش کی منزل میں ہوں جس میں علوم ظاہری تسکین کا باعث نہیں بنتے۔ دعا کا طالب وہمت کا خواستگار ہوں ۔ والسلام۔ سلیمانؔ ندوی۱؎حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کا جواب مولانا المحترم دامت فیوضہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عجب بات ہے کہ انبساط کا قصد نہ میرا تھا نہ جناب کا، دونوں طرف اتفاقاً ہی اس کے اسباب پیش آگئے، اس کا واقعہ تو جناب نے تحریر ہی فرمادیا، اس طرف یہ واقعہ ہوا کہ میں نے بالتعین کسی بزرگ کے پاس رسالہ نہ بھیجنے کو کہا تھا، دو وجہ سے، ایک یہ کہ مجھے بزرگوں کی فہرست ہی بہت غیر مکمل معلوم ہے، دوسرے کسی کو ایسی تکلیف دیتے ہوئے ہمت نہیں ہوتی، خصوص اگر میرا کلام ہو تو بے حد حجاب ہوتا ہے، یہ رسالہ میرے ہمشیرہ زادے نے لکھا، اگرچہ میرے ہی کہنے سے لکھا، چونکہ عام طبائع کی حالت پر نظر کر کے اس استفتاء کی مضرت عامہ کا قوی اندیشہ ہے، اس کے انسداد کی سب سے انفع تدبیر علماء ------------------------------ ۱ ؎ تذکرہ سلیمان ص۸۵