مکاتبت سلیمان |
|
’’پچاس خط لکھ چکیں تو پھر انشاء اللہ‘‘ پھر فرمایا: ’’خواہ روزانہ یا صبح وشام خطوط لکھ کر یہ عدد پورا کردیجئے۔‘‘ حضرت مولانا تھانویؒ پر انتظامی شان غالب تھی، اس لئے بیعت سے قبل ایک معتد بہ مراسلت کی شرط ضرور عائد فرماتے تھے،٭ یہاں بھی عام ضابطہ کے مطابق ایک قید تو عائد فرمادی مگر دیکھئے کہ کس حکیمانہ وکریمانہ انداز سے ضابطہ ومحبت کے تقاضوں کو ہم آہنگ کردیا کہ نہ یہ ٹوٹے نہ وہ چھوٹے! حضرت والاؒ نے یہ شرط قبول فرمائی کہ ع ہر چہ ازدوست میر سد نیکوست۱؎عزم تھانہ بھون جولائی اگست ۱۹۳۸ء میں مولانا عبد الباری ندویؒ مد ظلہ تھانہ بھون میں مقیم تھے، اس مرتبہ کھل کر اور اصرار سے حضرت والا کو لکھا کہ: ’’بس اب میری اس حاضری کے زمانے میں ہمت فرماکر آہی جائیں ۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اصرار کی وجہ بھی خود مولانا ہی کی زبانی سنیے۔ : ’’اصرار کی وجہ خصوصیت کے ساتھ یہ تھی کہ حضرت علیہ الرحمۃ کا سلسلۂ علالت طول پکڑتا جارہا تھا اور ڈر تھا کہ کہیں یہ آفتاب ارشاد وتربیت لب بام نہ ہو۔‘‘ ۲؎ ------------------------------ ٭ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا اس نوع کی شرطیں لگانے کا دائمی معمول نہ تھا ،بہت سے لوگوں کو بغیر کسی شرط کے فورا بیعت فرمالیتے تھے اور بہت سے لوگوں کو بیعت میں جلدی نہ فرماتے، بلکہ مختلف قسم کی شرطیں لگاتے جس سے مقصود طلب صادق کا امتحان ہوتا تھا ، اور کبھی اس غرض سے تاکہ مناسبت تامہ پیدا ہوجائے ، اورکبھی دوسرے اغراض ومصالح سے ،مقصد صرف یہ ہوتاتھا کہ بیعت کا تعلق محض رسمی نہ ہو بلکہ حقیقی ہو۔ (مرتب) ۱ ؎ تذکرۂ سلیمان۔ ص:۱۳۸ ۲؎ سلیمان نمبر معارف ص ۶۵،۹۶۔