مکاتبت سلیمان |
کے روپیہ بنانے میں علماء کا کچھ اختلاف ہے رکھ دیا تھا۔ جواب :- میں نے قصداً مبہم لکھا تھا تاکہ آپ مجھ کو اس کی تفسیر لکھنے کا حکم دیں اور آپ کے حکم سے میں تفسیر لکھوں ، بدوں حکم کے از خود لکھتے ہوئے شرم آئی، اب اجازت کے بعدعرض کرتا ہوں وہ یہ کہ جہاں تقلیل مہر سنت ہے وہاں مہر مثل کی رعایت ولی کے ذمہ فرض ہے حتی کہ اگر ولی صغیرہ کا نکاح مہر مثل سے اقل پر کرے بعض صورتوں میں نکاح ہی نہیں ہوتا ، تو مہر مثل منکوحہ کا حق ضروری ہوا، اس میں خود منکوحہ بالغہ ہو تو ایثار کر سکتی ے دوسرے کو اس کا حق نہیں اور اس سنت اور اس فرض میں تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ سب قوم متفق ہو کر مہر مثل کم مقدار کا مقرر کر دیں اور بدون اس کے فرض مقدم ہوگا۔ ۱؎ اشرف علیمتوفی بیوی کے دین مہر کی ادائیگی کی فکر مضمون :- صفائی معاملات۲؎ سے حقوق عباد کی اہمیت دل میں اتر گئی، میری پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا، دین مہر واجب تھا، میں نے عزم کیا کہ سب ورثہ سے اس کو معاف کرائوں گا، خواہ وہ مجھ سے چھوٹے ہوں یا بڑے اعزہ ورثہ بکھرے ہوئے تھے، اتفاق عجیب کہ ابھی میرے بڑے سالے کا انتقال ہوا، تعزیت میں سب ورثہ جمع تھے، میں نے سب سے معاف کرایا، یہاں تک کے اپنے چھوٹے بالغ لڑکے سے، اور دل نے راحت محسوس کی۔ وما ھذا باول برکاتکم ۔ جواب :- ماشاء اللہ توفیق حق یہی ہے۔ جعلہ اللہ لنا رفیقا لنا ولکم۔ ------------------------------ حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں : ۱ ؎ مہر کم کرنے سے مراد یہ ہے کہ تمام برادری جمع ہوکر اس کو کم کر دے ورنہ متعارف (مروجہ) مقدار لڑکی کا حق ہے، ولی کم کر کے اس کا نقصان کرتا ہے جس کا اس کو حق نہیں ۔ جن صورتوں میں ولی کو مہر مثل سے کم مقرر کرنا جائز نہ ہو جیسا کہ فقہی مسائل میں مذکور ہے وہاں اس پر عمل کی صورت یہ ہے کہ سب لوگ متفق ہو کر اپنے عرف کو بدلیں جس سے خود قلیل مقدار ہی مہر مثل بن جائے۔ ( الافاضات الیومیۃ،اصلاح انقلاب) ۲ ؎ ’’صفائی معاملات حضرت اقدس تھانویؒ کی ایک اہم کتاب ہے۔