مکاتبت سلیمان |
|
وقت آیا تو تصنیف وتالیف سے ان کی طبیعت بھر چکی تھی ، علاوہ ازیں جو کیفیت ان پر طاری ہوگئی تھی اس کازبان قلم پر بھی لانا آسان نہ تھا ، اس لئے خاموشی کو ہمراز بناکر انہوں نے تصوف پر اظہار خیال سے گریز کیا ، میں نے ایک بار تصوف میں اپنی دلچسپی اور اس پر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو فرمایا! ’’ کیا آم کو چکھے بغیر اس کا ذائقہ بیان کیا جاسکتا ہے ‘‘ ۱؎فن تصوف سے متعلق چند سوالات اور حضرت سید صاحب ؒ کے جوابات سوال۔ محترمی جناب سید صاحب مدفیوضہ‘ السلام علیکم جب سے آپ کی ذات گرامی سے غائبانہ تعارف ہوا ہے اسی وقت سے یہ شوق دامنگیررہا ہے کہ خط وکتابت ہی کے ذریعہ آپ سے کچھ استفادہ کیا جائے ، اپنے دینی شعور کی ابتداء ہی سے میں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر مسئلہ میں کتاب وسنت ہی کو معیار حق اور دلیلِ راہ بنایا ہے ، اور خدا کا شکر ہے کہ فقہی مسائل میں مسلمانوں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کی نوعیت کو کسی حدتک سمجھ سکتا ہوں ،اور ان مسائل میں اہل ظاہر اور اصحاب رائے کے بین بین کی راہ یعنی ’’فقہاء محدثین‘‘ یا اصحاب حدیث کے مسلک کی ترجیح کا قائل ہوں ، لیکن جو اختلاف محدثین اور صوفیائے کرام میں پایا جاتا ہے ، اس کی حقیقت کے سمجھنے میں ابھی تک پریشان ہوں ، اور اس الجھن سے نکلنے کے لئے سیرت نگار رسول ہی کی راہ نمائی کی ضرورت ہے، اور وہ سوال یہ ہے کہ رسول اللہ ------------------------------ ۱؎ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کی علمی ودینی خدمات پر ایک نظر ص ۱۳۲۔