مکاتبت سلیمان |
|
حدیث احسان ’’ان تعبد اللہ کانک تراہ‘‘ کی تشریح مضمون :- حضرت نے والانامہ میں ارقام فرمایا ہے۔ ’’حدیث اعبد ربک کا جو مفہوم صحیح ہے خلاف مشہور وہ ہنوز محتاج تحقیق ہے اس وقت اُس سے تعرض نہیں کیا گیا۔‘‘ دل اس کے سننے کا مشتاق ہے اگر میرے لئے خلاف مصلحت ہو یا حضرت کی زحمت کا باعث ہو تو اصرار نہیں اسی لئے اس وقت دوسرے حالات عرض نہیں کئے گئے کہ زحمت جواب مزید نہ ہو۔ جواب :- اس شق کے خلاف مصلحت ہونے کا ذہن میں آنا نا شیٔ ہے غایت تواضع سے ورنہ اہل کے لئے کسی علم کا خلاف مصلحت ہونا محتمل ہی نہیں ۔ اس لئے امتثال امر کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ مشہور حدیث کے معنی میں یہ ہے کہ اس میں دو مراقبوں کی تعلیم ہے، ایک رؤیۃ العبد للہ ِتعالی دوسرا رؤیۃ اللہ تعالی للعبد ۔ اور دو کی تعلیم اس لئے کی گئی کہ اصل مقصود اول ہے جو اس پر قادر نہ ہو اس کے لئے اول کی جگہ دوسرا ہے، لیکن اگر الفاظ حدیث میں غور کیا جائے اس معنی کی کوئی دلیل نہیں بلکہ لفظ کانک اس کے خلاف پر دال ہے کیوں کہ یہ تشبیہ کے لئے ہے تو تشبیہ پر قادر نہ ہونا کیا معنی۔ پھر دوسرے جملہ میں حرف فابے ربط ہوا جاتا ہے۔ اگر یہ دوسری شق ہے تو مقابلہ کا اقتضا واؤ ہے نہ کہ فاء وہ تفریع یا تعلیل کے لئے ہوتا ہے اور دونوں مقابلہ کے معارض ہیں ۔ اس لئے صحیح معنی یہ ہیں کہ عبادت ایسی اچھی طرح اخلاص وادائے حقوق کے ساتھ کرو کہ تمہاری حالت اُس حالت کے مشابہ ہو جیسے تم فرضاً اللہ تعالی کو دیکھتے ہوتے تو کس طرح عبادت کرتے یہ تو تشبیہ کا حاصل ہوا، آگے فاء تعلیل کے لئے ہے کہ ایسی طرح عبادت کرنا کیوں مامور بہ ہے حالانکہ اللہ تعالی کو ہم نہیں دیکھتے تو ایسی عبادت کیسے کر سکتے ہیں ، اس کی علت بیان فرماتے ہیں کہ اس طرح تحسین عبادت کا حکم اس لئے