مکاتبت سلیمان |
|
نبی اور مجدد کے منصب کا فرق چونکہ اس حدیث کا سہارا لے کر بعض دفعہ مدعیان باطل نے نئے نئے دعوے کئے ہیں یہاں تک کہ نبوت کے حدود ِ حرم تک پہونچنے کی کوشش کی ہے اور اسلام میں نئے نئے فرقوں بلکہ امتوں کی بنیاد ڈالنی چاہی ہے، اس لیے یہ لغزش گاہ بھی ہے اور اس مقام پر قلم اور قدم کو بہت پھونک پھونک کر چلنا چاہیے، اسی لیے ضرورت ہے کہ بتادیا جائے کہ نبی کی ضرورت اصل احکام کے من جانب اللہ انسانوں تک پہونچانے کے لیے ہے یعنی نبی اللہ تعالیٰ سے پاکر بندوں تک پہونچانے میں واسطہ ہے، وہ عقل و قیاس اور علم و فہم سے نہیں کہتا،بلکہ وہ جو کچھ کہتاہے وحی سے کہتا ہے اور خدا سے پاکر کہتاہے ،اس کی وحی و تعلیم ہر خطا سے پاک اور وہ خودہر غلطی سے معصوم ہے، مگر مجددکا یہ حال نہیں ہے، بلکہ کتاب و سنت اور وحی و رسالت کے احکام و پیغام کو سمجھ کر اور اپنی فراست ایمانی صفائے ذہن ،عقل مستقیم اور قیاس صحیح اوررائے صواب سے صحیح غلط میں تمیز کرتا ہے، دین کو غیر دین سے ،ارشادات الہی کو ایجاد اتِ انسانی سے ،سنت کو بدعت سے ممتاز کرتاہے اور اپنی علمی و عملی زندگی کی طہارت و نزاہت اور ثبات و استقامت اور نبی کی اتباع کامل اور اقتدائے تام سے محبوبیت و مقبولیت کی شان پیدا کرتاہے۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ نبی کو مانے اور اس پر یمان لائے بغیر انسان اصل شریعت سے محروم رہتاہے اور کفر سے لپٹا رہتاہے اس لیے اس پر نعیم آخرت کا ہر دروازہ ہمیشہ کے لیے بند اور عذابِ آخرت کا ہر دروازہ ہمیشہ کے لئے کھل جاتا ہے ۔ لیکن مجدد کے نہ ماننے سے وہ صرف کتاب و سنت کی صحیح ترجمانی سے محروم رہتا ہے، ۱؎ اور بدعات ------------------------------ ۱ ؎ یہ محرومی بھی کتنی بڑی محرومی ہے کہ دولت ِ ایمان رکھ کر بھی اس کے دینی ودنیوی ثمرات وبرکات سے گویا عملاً محروم ہی رہتا ہے۔(مؤلف)