مکاتبت سلیمان |
|
بجائے عزیمت کے رخصت پر عمل کرنے کی اہمیت مضمون :- انہیں ایام میں ایک اور ابتلاء پیش آیا، ہمارے وطن میں مسجد ہمارے گھر سے کچھ فاصلہ پر ہے پھر بھی حضور جماعت فی المسجد کی توفیق شامل حال ہے، ہماری طرف ان دنوں سخت گرمی اور حدت شمس اور لوکی شکایت تھی ظہر کی نماز باجماعت میں اس حالت گرما کو دیکھ کر شمول کی نیت مذبذب ہورہی تھی، مگر بار بار آیت قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرَّا زبان پر بے ساختہ آرہی تھی، اور توکل بخدا منھ لپیٹ کر مسجد کو گیا اور آیا، تقدیر یہ کہ چہرہ میں لو لگ گئی اور کئی وقت شہود جماعت اور حضورِ مسجد سے محرومی رہی اور ایام مشغولی میں پہلی دفعہ معمولات سے معذور رہا، اس سے دل نے یہ سبق لیا کہ ہم جیسے خفیف الہمت کا ایسے موقع پر رخصت کو چھوڑ کر عزیمت پر عمل کرنا شاید موجب حرمان ہوا۔ جواب :- حرمان تو خدا نہ کرے کیوں ہوتا جب کہ مضاعفا اجر ملتا ہے عمل کا بھی اور مشقت کا بھی یہ تو زمانۂ عمل ہے اور اس سے جو معذوری پیدا ہوگئی ہے اس میں بھی ایک اجر عمل حکمی کا عطا ہوتا ہے جیسا حدیث میں زمانہ عذر میں اجر مثل کا لکھا جانا وارد ہے، البتہ کیفاً جو رخصت پر ثمرات مرتب ہوتے اس میں من وجہ نقصان کا موجب ضرور ہوگیا اور وہ ثمرات یہ ہیں ۔ اعتراف اپنے عجز کا، شکر انعام رخصت کا، مشاہدر افت محسن کا۔ افناء دعوت قوت کا وللآخذین الرخصۃ امثالہا اسی لئے وارد ہے۔ ان اللہ یحب ان یوتیٰ رخصہ کما یحب ان یوتی عزائمہ اور بعض تعلیمات میں جو اتباع رخصت کا غیر مرضی ہونا وارد ہے ترددات طویلہ کے بعد ایک محقق کے کلام میں اس کا محمل نظر سے گزرا یعنی جو رخصت خود اس نے تاویل سے بنائی ہو شارع سے اس میں اذن نہ ہو۔ ۱؎ ------------------------------ ۱ ؎ النور ربیع الاول ۱۳۶۲ھ