مکاتبت سلیمان |
|
بیٹھے گفتگو فرمانے لگے ، کبھی بعد نماز مغرب دار المصنفین کی مسجد کی شمالی چار دیواری پر ایک کونہ میں ذکر حق میں مشغول ہوتے، کبھی مکان مسکو نہ کے باہر بر آمدہ میں تخت پر بغیر کسی فرش کے کبھی مکان کے کسی اور گوشہ میں متوجہ الی الحق پائے جاتے، کھانے کا وقت آتا یا کسی اور ضرورت سے لوگ تلاش کرتے ہوئے پہنچتے تو اس حالت میں دیکھ کر عرض کرتے کہ اس طرح کیوں تشریف رکھتے ہیں ، فرمادیئے ہوتے تو فرش بچھا دیا جاتا یا قالین کی جا نماز بچھا دی جاتی سردی کا موسم ہے، ٹھنڈک نہ لگ جائے فرماتے کہ ان ظاہری باتوں میں کیا رکھا ہے ۔ ٭ یہ اس شخص کا حال ہے جو اس دور میں نفاست مزاج میں مرزا مظہر جانِ جاناں شہیدؒ کی مثال اور ظاہری وباطنی حسن اخلاق کا مجسمہ تھا، جس کا رہن سہن اور لباس شاہانہ رہ چکا تھا۔‘‘ ۱؎ ------------------------------ ٭سید صاحب ؒ کے یہ احوال اور کیفیات بھی امام غزالیؒ کے احوال کے مشابہ تھے، علامہ شبلیؒ امام غزالیؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ’’امام صاحب جس حالت میں بغداد سے نکلے عجب ذوق اور وارفتگی کی حالت تھی، پر تکلف اور قیمتی لباس کے بجائے بدن پر کمّل تھا، اور لذیذ غذائوں کے بدلے ساگ پات پر گذر ان تھی ۔ غرض بغداد سے نکل کر شام کا رخ کیا اور دمشق پہنچ کر مجاہدہ وریاضت میں مشغول ہوئے ، روزانہ یہ شغل تھا کہ جامع اموی کے غربی مینار پر چڑھ کر دروازہ بند کرلیتے اور تمام تمام دن مراقبہ اور ذکر وشغل کیا کرتے، متصل دو برس تک دمشق میں قیام رہا، اگرچہ زیادہ اوقات مجاہدہ ومراقبہ میں گذرے ، تاہم علمی اشغال بھی ترک نہیں ہوئے۔دمشق سے نکل کر بیت المقدس پہنچے یہاں بھی یہ شغل رہا کہ صخرہ کے حجرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کرلیتے اور مجاہدہ کیا کرتے۔ (الغزالی، ص۲۳،۲۵) ۱؎ تذکرہ سلیمان ص: ۱۳۴، سلیمان نمبر، معارف، ص:۳۲۹تا ۳۳۲۔