مکاتبت سلیمان |
|
فائدہ: سیدصاحب کے مکتوب میں توسل بالذوات کا تذکرہ ہے لیکن جواب میں اس کی تفصیل نہیں ، البتہ دوسرے مکتوب میں توسل بالذوات کی تفصیل موجود ہے فائدہ کی غرض سے اس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ (مرتب)توسل بالذوات توسل بالذوات بے شبہ جائز ہے ، اَحیاء میں تو کلام کسی کو نہیں ، جس طرح حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ کے توسل سے استسقاء کیا ۔ رہ گیا اموات کے ساتھ ۔ اموات کے ساتھ توسل کے یہ معنی ہیں کہ ان کے اعمال خیرومقبولہ سے توسل کیا جائے ۔ جس طرح اپنے اعمال خیر سے توسل جائز ہے ، جیسا کہ حدیث الغار سے ثابت ہے ( کما رواہ البخاری) اسی طرح دوسرے اَحیاء و اموات کے اعمالِ خیر سے بھی وابتغواالیہ الوسیلۃ الآیہ کی تفسیر بھی توسل بالاعمال سے کی گئی ،البتہ اموات سے خطاب کرکے اگر مستقلاً ان سے مانگا جائے تو یہ شرک ہے۱؎ ۔ اور اگر ان سے یہ کہا جائے کہ میرے لئے وہ خدا سے دعا کریں ، تو(بعض )اہل دیوبند جائز سمجھتے ہیں ،لیکن میں اس کو بدعت سمجھتا ہوں کہ یہ طریق دعا منقول وثابت نہیں ، ------------------------------ ۱؎ حکیم الامت حضرت تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں : اس مسئلہ میں تفصیل یہ ہے کہ توسل بالمخلوق کی تین تفسیریں ہیں ایک مخلوق سے دعا کرنا اور اس سے التجا کرنا، جیسا مشرکین کا طریقہ ہے، اور یہ بالاجماع حرام (اور شرک جلی) ہے ۔توسل کی دوسری تفسیر یہ کہ مخلوق سے دعا کی درخواست کرنا ، اور یہ ایسے شخص کے حق میں جائز ہے جس سے دعاء کی درخواست ممکن ہے ، اور یہ امکان میت میں کسی دلیل سے ثابت نہیں ، پس (توسل کے )یہ معنی زندہ کے ساتھ ہوں گے ،توسل کی تیسری تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا ء کرنا اس مقبول مخلوق کی برکت سے ، اور اس کو جمہور نے جائز رکھا ہے اور ابن تیمیہ اور ان کے متبعین نے منع کیا ہے ۔ (التشرف،ص۱۳۹ ،نشرالطیب فصل ۳۸)