مکاتبت سلیمان |
|
سید صاحبؒ کی طبیعت کی شرافت ومروّت آخری چیز جو ان کی پوی زندگی میں نمایاں رہی وہ ان کی طبیعت کی شرافت ومروت تھی وہ باکل بے آزار اور غیر منتقمانہ طبیعت کے آدمی تھے ان کے لئے ظالم کے بجائے مظلوم بننا بہت آسان تھا ، ان کی یہ صفت اس درجہ تک پہونچی ہوئی تھی جو کمزور ی سے تعبیر کی جاتی تھی ، ایک ایسی سوسائٹی میں جو اس طر ح کی صفات کی قدر کرنے کی عادی نہیں ان کو اپنی اس افتاد طبع کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی اور اپنی رضا مندی کے خلاف بہت سے فیصلے کرنے پڑے، اس طویل زندگی اور وسیع تعلقات میں شاید کوئی ایسا شخص مل سکے جو بیان کرے کہ سید صاحب نے اس کو کبھی نقصان پہونچایا یا اپنی ذات کا انتقام لیا ۔ ۱؎ایک تکلیف دہ واقعہ اور سید صاحب کا صبر وتحمل سید صاحب کے ان نئے رجحانات نے طلباء میں وہ مقبولیت اور کامیابی حاصل نہیں کی جو ان کے مقام کے لحاظ سے متوقع تھی بلکہ اس سے ایک ذہنی کشمکش پیدا ہوئی، اس کا نقطۂ عروج وارتقاء طلباء کی وہ اسٹرائک تھی جو ۱۹۴۳ء میں پیش آئی ، ۲؎ آغاز ------------------------------ ۱؎ پرانے چراغ ص۶۲ ۲؎ اس اسٹرائک کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندویؒ مولانا مسعود عالم ندوی کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : ’’اس کی وجہ جو میرے ذاتی خیال پر مبنی ہے، جو تھانہ بھون کا اثر نہیں ہے، بلکہ عہد قدیم سے ہے مگر بہرحال اس کا اجراء نہیں کیاگیا ، کیا ذاتی خیال بھی منع ہے ؟ موجودہ شورشیں تمام تر دارالاقامہ کی ہیں دارالعلوم کی نہیں ۔ اپریل ۱۹۴۳ء (مکاتیب سیدسلیمان ص۱۳۵، ۱۳۹)