مکاتبت سلیمان |
|
سید صاحبؒ کا عربی ادب کا ذوق حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ حضرت سید صاحب ؒ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں : عربی زبان وادب اور بلاغت اور اعجاز قرآنی کا مطالعہ ان کا بہت وسیع وعمیق تھا۱؎ مجلس خلافت سلطان ابن سعود کی دعوت پر موتمر اسلامی میں شرکت اور مسلمانان ہند کے خیالات کی ترجمانی کے لئے ایک وفد مرتب کرتی ہے تواس کی قیادت کے لئے اس سے زیادہ موزوں شخص نظر نہیں آتا جو عالم اسلام کے اس نمایندہ ومنتخب مجمع میں عربی میں اظہار خیال کی قدرت رکھتا ہو اور مسلمانان ہند کی دینی علمی عظمت کا نقش قائم کرسکے ۲؎ نیز ندوۃ العلماء کے ابتدائی دور کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : اس پورے عرصہ میں عربی زبان کی تعلیم کے لئے فضلائے ندوہ کے قلم سے صرف ایک ہی کتاب ’’ دروس الادب‘‘ (۱۔۲)(تصنیف مولانا سید سلیمان ندوی) نکلی ، جونہ صرف یہ کہ دارالعلوم کے نصاب میں داخل ہوئی دوسرے مدارس کے حلقے میں بھی مقبول ہوئی کہ ہندوستان میں وہ اپنے طرز کی پہلی کوشش تھی ۔ ۳؎ علامہ سید سلیمان ندویؒ مولانا مسعودعالم ندویؒ کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : میری نسبت اتنی بدگمانی تو آپ کو نہیں ہوسکتی کہ میں عربیت کے ذوق سے کورا ہوں ، ابھی مولانا مناظر صاحب کی تعلیم وتربیت کی تنقید میں آزاد بلگرامی کی عربیت پر میری رائے آپ پڑھ چکے ہیں ، میں نے ان کو ہندوستان کا سب سے بڑا عربی شاعر وسعت کلام کی بنا ء پر کہا ہے ، کیا ان کے علاوہ آپ نے ہندوستان کے کسی شاعر کا ان سے پہلے کوئی چھوٹا سا عربی دیوان بھی دیکھا ہے ؟ پھر جس نے مثنویوں کے علاوہ جس کے بھی ------------------------------ ۱؎ دعوت فکر وعمل ص۱۸۸ ۲؎ پرانے چراغ ص۵۵ ۳؎ کاروان زندگی ص۳۰۳ ۔