مکاتبت سلیمان |
|
چائے رفقائے دار المصنفین کے ساتھ نوش فرماتے، اور مغرب تک ان سے مختلف مسائل پر گفتگو فرماتے ، یہ مجلس بھی ختم ہوگئی،کبھی اعزہ اہلیہ محترمہ سے اشتیاق ظاہر کرتے کہ قبلہ سے کچھ باتیں سنوادیجئے، عرصہ ہوا ان کی صحبت میسر نہیں آئی تو وہ جاکر خلوت سے آتیں اور کچھ دیر کے لئے آپ تشریف لے آتے، اہل وعیال اور احباء کی درخواست آپ کم مسترد فرماتے تھے ، اس لئے ان کی دلجوئی واستمالت کے لئے بر آمدہ یا آنگن میں تشریف رکھتے مگر دل کہیں اور ہی ہوتا ، سب کی خیر وعافیت دریافت فرماتے اور جلد ہی کہیں اٹھ کر جانا چاہتے، اگر کوئی اصرار کرتا تو تھوڑی دیر کے لئے رک بھی جاتے ، لیکن سب کو یہ محسوس ہوتا کہ ؎ چسکا لگا ہے جام کا شغل ہے صبح وشام کا اب میں تمہارے کام کا ہم نفسو نہیں رہا (مجذوب) یہ صورت دیکھ کر لوگوں نے اصرار کرنا ترک کردیا اور حضرت قبلہ کا اہل وعیال سے ملنا جلنا بھی دس پانچ منٹ کا رہ گیا، باہر کے سفر بھی ترک فرما دیئے، ایم ، اے وغیرہ کے امتحانات کی ممتحنی وغیرہ سب چھوڑ دی، اور دار المصنفین کے کام کے علاوہ خلوت کو زیادہ عزیز رکھنے لگے۔ خوردونوش اور لباس وغیرہ میں بڑی تبدیلی ہوگئی پہلے کے لباس فاخرہ سب بکسوں ہی میں بند رہ گئے، نادرؔ شاہ کی عطا کردہ خلعت کو کیڑوں ہی نے چاٹ لیا ،اکثر اہلیہ محترمہ یاد کر کے ہر دوسرے دن کپڑے نکال دیتیں اور اگر کاموں کی مشغولیت سے انہیں خیال نہ رہتا تو خلاف معمول تین تین دن تک ایک ہی کپڑا پہنے رہتے، بعض لوگ جنہیں مزاج عالی میں درخور تھا، کبھی یہ عرض کرتے کہ حضرت تصوف کے یہ معنی تو نہیں کہ انسان کو کپڑا بدلنے کی بھی خبر نہ رہے تو مسکراکر فرماتے کہ اب بوڑھا ہوگیا ہوں ، یاد نہیں رہتا ، آپ یاد دلا دیا کریں ۔ انہی ایام میں دیکھا کہ قبلہ فرش زمین پر بیٹھے ہیں کہ لوگ آگئے، آپ بیٹھے