مکاتبت سلیمان |
|
زمانہ کی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تشریف آوری کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ’’مولانا محمد الیاس صاحبؒ ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب اور ایک تبلیغی جماعت بھی اس وقت ندوہ میں ہی مقیم تھی، دونوں کا قیام ندوہ کے مہمان خانہ میں تھا، اس زمانہ میں سید صاحب پر ذکر جہر کا بہت غلبہ تھا، دونوں حضرات کا قیام مہمان خانہ ہی میں تھا، مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ سید صاحب کے اس ذوق کو دیکھ کر بہت مسرور تھے‘‘۔ ۱؎ مدیر معارف مولانا شاہ معین الدین ندوی نے حضرت سید صاحب ؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ’’وہ صبغۃ اللہ میں بالکل رنگ گئے تھے، ’’وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً ‘‘ اور ان میں بڑا روحانی انقلاب ہوگیا تھا، ان کے خیالات میں بھی بڑا تغیر پیدا ہوگیا تھا، اور ان کی تقریروں اور تحریروں کا رنگ بھی بدل گیا ۔ حضرت والا ؒ کے داماد محترمی جناب سید حسین صاحب نے جو خود بھی حضرت تھانویؒ ہی کے دست گرفتہ ہیں ، حضرت والا کے تبدیلی احوال کا بڑا جامع نقشہ کھینچا ہے لکھتے ہیں : ’’پہلے دار المصنفین کے کاموں سے خالی اوقات کا کافی بڑا حصہ اہل وعیال کے ساتھ دینی مذاکرہ میں صرف فرماتے یا چھوٹے بچوں سے بذلہ سنجی میں ، اب اوقات کا بڑا حصہ خلوت میں گذرتا، خوا ہ مسجد میں ہو یا اپنے مسکونہ کمرے میں پہلے عصر کے بعد ------------------------------ ۱؎ پرانے چراغ، ص:۳۸ سلیمان نمبر معارف ص۳۴ و۱۱۱ ۔ ٭ علامہ شبلیؒ ’’الغزلی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں : ’’امام صاحب نے خود’’المنقد من الضلال‘‘ میں لکھا ہے کہ حج کرنے کے بعد اہل وعیال کی کشش نے وطن پہنچا یا حالانکہ میں وطن کے نام سے کوسوں دور بھاگتا تھا، وطن پہنچ کر میں نے عزلت وخلوت اختیار کی لیکن زمانہ کی ضرورتیں اور معاش کی تلاش میرے صفائے وقت کو مکدر کردیتی تھیں اور دلجمعی واطمینان کا وقت جستہ جستہ ہاتھ آتا تھا۔ (الغزالی ص:۲۷)۔