مکاتبت سلیمان |
|
حضرت سید صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں : مذہبی مسائل کی تحقیقات میں میرا یہ عمل رہا ہے کہ عقائد میں سلف صالحین رحمہم اللہ تعالی کے مسلک سے علیحدگی نہ ہو، البتہ فقہیات میں کسی ایک مجتہد کی تقلید بتمامہ نہیں ہوسکی بلکہ اپنی بساط بھر دلائل کی تنقید کے بعد فقہاء کے کسی ایک مسلک کو ترجیح دی ہے لیکن کبھی کوئی ایسی رائے اختیار نہیں کی جس کی تائید ائمہ حق میں سے کسی ایک نے بھی نہ کی ہو، خصوصیت کے ساتھ مسائل کی تشریح میں حافظ ابن تیمیہؒ حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہم کی تحقیقات پر اکثر اعتماد کیا ہے۔٭ ۱؎ میں نے اعتزال سے لے کر سلفیت تک بمدارج ترقی کی ہے ، عقائد میں امام مالک ؒ کے اس اصول کا پیروہوں ’’ الاستویٰ معلوم والکیفیۃ مجہول والایمان بہ واجب،والسوال عنہ بدعۃ ‘‘ فقہ میں متاخرین کا متبع نہیں ، مگر اہل حدیث باالمعنی المتعارف نہیں ہوں ، ائمۂ رحمہم اللہ تعالیٰ کا دل سے ادب کرتاہوں اور کسی رائے میں کلیۃ ان سے عدول حق نہیں سمجھتا ۔ ۲؎ (میں نے) ’’نیل الاوطار‘‘’’ زادالمعاد‘‘ اور مصنفات ابن تیمیہ وابن قیم وشوکانی ونواب صدیق حسن خاں سب پڑھیں ، پھر دوسرے پہلو کو بھی دیکھاتو معلوم ہوا کہ حق صرف ایک فرقہ میں منحصر نہیں ہے۔ ابن ہمام کی کتابیں ، اور ابن الترکما نی علی البیقہی بھی دیکھئے فتح ا لباری اور عینی میں غور کیجئے۔ ابن حجر میں بے شبہ وسعت ہے ، مگر عمق نہیں ۔ عینی میں عمق ہے۔۳؎ امام ربانی مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے سلسلہ سے عقیدت تامہ رکھتاہوں ، خرافات وطامات صوفیہ کا دل سے منکر ہوں ۔ ۴؎ ------------------------------ ٭بعض مسائل میں سید صاحب نے جمہور فقہاء ومحدثین کے خلاف رائے قائم فرمائی تھی لیکن بعد میں تنبہ ہوا اور اپنی سابقہ رائے وتحقیق سے رجوع وتبرّی کا اعلان فرمایا۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص : ۸۲تا ۸۵ ۱؎ معارف، جنوری ۱۹۴۳ء ۲؎ تذکرہ سلیمان ص ۱۰۳ ۳؎ مکاتیب سید سلیمان ص۲۲۷ و ۲۲۹ ۴؎ تذکرہ سلیمان ص۱۰۰۔