مکاتبت سلیمان |
|
پر سامنے رکھیں اور ان کی پیروی کی کوشش کریں جو اپنی دینداری اور صلاح اور اپنی دینی و دنیوی اور علمی وادبی جامعیت میں بھی امتیاز خاص کے مالک تھے٭۔ ۱؎ ------------------------------ ۱؎ پرانے چراغ۔ ص: ۴۰۔ ٭ دارالعلوم ندوہ کی ذمہ داری قبول فرمانے کے بعد سید صاحب ؒ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ندوہ کے مقاصد ومطالب کو نئی روشنی میں پھر سے دیکھنا ہے، کہ اب کیا ہونا اور کیا کرنا ہے‘‘۔ (مکاتیب سلیمان ۹۴) تاریخ ندوہ میں ہے: دارالعلوم ندوۃ العلماء اور دوسرے عربی ودینی مدارس میں خاص قرب واعتماد پید ا ہوچکا ہے اس تغیروانقلاب کا سہرا دارالعلوم کے سرمایۂ صدفخر فرزند مولانا سید سلیمان ندوی ؒ کے سر ہے ، جن کی علمی عظمت ، دینی رسوخ، اور شخصی مقبولیت نے دارالعلوم کو تمام دینی حلقوں میں مقبول بنا دیا۔ (رجسٹر سوم کاروائی مجالس انتظامیہ ندوۃ العلماء) مجلس انتظامی کی اس تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ سے بیعت وتعلق سے بھی اس دینی رجحان کو تقویت ملی جو ایک طویل عرصے تک دارالعلوم کے معتمد تعلیم رہے ۔ (تاریخ ندوۃ العلماء ج ۲ ص ۴۰۵) حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں : ’’بحمداللہ دارالعلوم ندوۃ العلماء اور اس کے فاضل اساتذہ واہل علم کی مختصر صحبت نصیب ہوئی ۔ ندوہ جیسا علمی مرکز اب تک نہیں دیکھا تھا ، بحمد اللہ اس کی زیارت ہوگئی ۔ ندوہ کی علمی ودینی فضا دیکھ کر بڑی امیدیں قائم ہوئیں اور حوصلہ بڑھا ، ندوہ ، بقول اکبر مرحوم مسلمانوں کی ’’زبان ہوش مند‘‘ توہمیشہ سے تھا ، لیکن ’’ دل دردمند‘‘ کی جو کسر بیان کی جاتی تھی وہ حضرت مولانا سید سلیمان صاحب ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب مدظلہم نے پوری فرمادی ہے، خاص طور سے حضرت مولانا علی میاں مدظلہم العالی کی فکر وبصیرت ، جہد وعمل اور سوز وگداز کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں ، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا مدظلہم نے اس ادارے کو حیات نو بخش دی ہے۔ (جہان دیدہ ص۵۳۴)