مکاتبت سلیمان |
|
اس کا اگرچہ کچھ انتظامی معاملات سے ہوا، لیکن اس کے اندر بے اطمینانی اور کشمکش کی یہی روح کام کررہی تھی اس اسٹرائک کی قیادت ہمارے بعض عزیز شاگرد کررہے تھے ، جو دار العلوم کے بہترین طلباء تھے، اور ان سے ہم نے اور دار العلوم نے بڑی بڑی توقعات قائم کی تھیں ، ان میں سب سے زیادہ نمایاں میرے عزیز ترین شاگرد علی احمد کیانی تھے مجھے اپنے دس سال کے تدریسی دور میں اور اس کے بعد بھی جب میں نے بحیثیت نائب معتمد اور معتمد کے کام کیا اس نوجوان سے زیادہ ذہین ، ذی استعداد اور سلیم الطبع طالب علم نہیں دیکھا، دوسرے اورتیسرے ہی درجہ سے اس کا یہ حال تھا کہ صرف ونحو کی غلطی اس سے ہونی بہت مشکل تھی، میرے بعض عربی مضامین کا ترجمہ بھی کیا تھا، وہ اسٹرائک کے بعد جب کراچی گئے تو اپنی نو عمری کے باوجود کراچی کی علمی مجلسوں میں علامہ کیانی کے نام سے مشہور ہوئے، جیسا کہ طلباء کے ہنگاموں میں ہواکرتا ہے، وہ طوعاً وکرہاً طلباء کے نمائندہ اور اسٹرائک کے قائد بن گئے۔ ان کے سب استادوں کو اور بالخصوص مجھے ان کے اس ہنگامہ میں نہ صرف شریک ہونے بلکہ قائد بننے سے سخت قلق تھا، زیادہ تر اس وجہ سے کہ اس اسٹرائک کی زد سید صاحب کی شخصیت اور ان کی معتمدی پر پڑتی تھی، بلکہ وہ اس وقت ندوہ کے حقیقی مربی اور سرپرست اور اس کے لئے سینہ سپر تھے، سید صاحب کے دل کو بھی اس ہنگامہ سے بڑی چوٹ لگی ان کے دل میں ندوہ کی خدمت اور طلباء کی تربیت کی بڑی بڑی امنگیں تھیں ، ان کو اس سے اپنی تمنائوں کا خون اور اپنی کوششوں کی ناکامی کا منظر نظر آیا اور بہت دل شکستہ اور افسردہ ہوگئے، انھیں دنوں میں علی احمد مرحوم پر جنون کا دورہ پڑا اور حالت یہاں تک پہونچی کہ ان کو گھر والوں نے رسیوں سے باندھ دیا ان کے بھائی میرے برادر معظم داکٹر سید عبد العلی صاحب مرحوم کو ان کو دکھانے کے لئے گھر لے گئے ، میں بھی خصوصی تعلق کی بناء پر ساتھ ہوگیا، مرحوم کو جب رسیوں سے باندھا ہوا دیکھا تو آنکھ میں آنسو آگئے کہ یہ نوجوان جو اپنی ذکاوت اور صحیح الدماغی میں اپنے ساتھیوں کے لئے بھی قابل رشک تھا،