مکاتبت سلیمان |
|
گئی تھی ،جس میں کچھ درخت بھی لگادئیے گئے تھے ،چھوٹی سی مسجداورایک مختصر سا سائبان بھی اس میں ہے،اسی میں دوسرے اعزہ اور خدام بھی آسودہ ہیں ،اسی کے بیچ میں اس مخدوم کی استراحت ابدی کے لئے زمین چنی گئی۔ جنازہ کی نماز کے لئے مولانا شبیر علی صاحب نے مولانا ظفر احمد صاحب کو اشارہ کیا، مجھے معلوم ہو اکہ پہلے تو مولانا ظفر صاحب نے تواضع کرنا چاہا مگر انہیں اپنا خواب یاد آیا تو آگے بڑھے اور نماز جنازہ ادا کی، میں نے سنا کہ مولانا ظفر احمد صاحب ڈھاکہ میں تھے اور حضرت کی شدتِ علالت کی خبریں جارہی تھیں ، اور گھر سے آنے کے لئے شدید تقاضا بھی ہورہا تھا تو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ تھانہ بھون پہنچے اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ایک نماز پڑھانے والا آگیا۔ یہ واقعات تھانہ بھون میں ۱۹؍ اور ۲۰؍ جولائی کو پیش آئے مگر باہر والوں کو اطلاع دو دن بعد ملی ، دہلی میں ۲۱؍کو لکھنؤمیں ۲۲؍کو ،مذہبی حلقوں کو اطلاع دو دن بعد ملی اور عربی مدرسوں میں سناٹا چھاگیا۔ خاکسار اب تک بھوپال میں تھا ،عنایت الہی دیکھئے کہ عین شب وصال خواب دیکھا کہ مولانا شبیر علی صاحب مجھ سے فرمارہے ہیں کہ حضرت مولانا کو پوری صحت ہوگئی صبح اٹھ کر میں نے حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب ؒ سے یہ خواب بیان کیا،دونوں چپ رہے ،مفتی صاحب ۲۱؍جولائی کو اورخاکسار ۲۳؍جولائی کو بھوپال سے روانہ ہوئے ،میں ۲۳؍کی دوپہر کو لکھنؤ پہنچا اور ندوہ آیا ،حادثہ سے بالکل بے خبر تھا،مدرسہ پہنچنے کے ساتھ میرے بچے سلمان سلمہٗ نے سب سے پہلے خبر دی اور اتفاق دیکھئے کہ بھوپال سے خط تو میں نے خیر وخیریت کے لئے مولانا جمیل احمد کو لکھا تھا، چنانچہ انہوں نے دوشنبہ کے روز شدت علالت اورمایوسی کی اطلاع لکھی اور اس کی دوسری طرف بلا توقع مولانا شبیر علی صاحب کے قلم کی عبارت یہ تھی ۔