مکاتبت سلیمان |
|
یہ ناچیز اخیر وقت تک حاضر خدمت رہا ،دل پر پتھر رکھ کر بیٹھا رہاقلب اطہر کی طرف متوجہ رہا ،تشنگی رفع کرنے کے لئے آب زمزم دیتارہا ،یہاں تک کہ آخری سانس میرے سامنے ختم ہوا ،یسین اور کلمہ کی تلقین کرتا رہا،غسل بھی دیا ،نماز بھی پڑھائی۔‘‘ رات کے دس بجے تھے کہ عشاء کی نماز کے لئے خدام قریب کی حوض کی مسجد میں گئے، کہ اسی اثناء میں وہ دم آگیا جس دم کے لئے ہر دم تیاری رہتی تھی ،اور ودیعہ ٔ حیات کی آخری سانس اس دنیا میں لے کر واصل بحق ہوئے ۔ الھم انزل علیہ شآبیب رحمتک وارفع درجتہ وارزقنا من برکاتہ۔ اس وقت خدام خاص کی کیفیت خیال کے قابل ہے ،جو ایک طرف اپنے محبوب کے فراق میں بیقرار تھے اور دوسری طرف مقام صبر و رضا کی تعلیم سے بہرہ ور تھے اور حق تھا کہ حضرت سرور انبیاء سید الرسل علیہ الصلاۃ والسلام کی اتباع میں وہ کہیں جو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محبوب فرزند ابرہیم کی وفات کے وقت ارشاد فرمایاتھا کہ ’’اے ابراہیم ہم تیری جدائی سے غمگین ہیں لیکن زبان سے ہم وہ ہی کہیں گے جس میں ہمارے پروردگا ر کی رضا مندی ہو۔‘‘تاکہ محبت اور تسلیم و رضا دونوں کا حق اداہو۔ تجہیز و تکفین کے متعلق یہی فیصلہ ہوا کہ صبح کو ہو ،صبح کے وقت خبر کے لئے دو آدمی سہارنپور بھیجے گئے ،ایک مدرسہ مظاہرا لعلوم میں جس سے حضرت کو بہت روحانی تعلق تھا اور دوسرا سہارنپور کے احباب کے پاس ،اس صبح کی جانے والی اور آنے والی گاڑیوں میں آدھ ہی گھنٹہ کا فصل ہوتا ہے اس لئے جو لوگ سننے کے ساتھ جس حال میں تھے اسی حال میں چل پڑے ،وہ تو پہلی گاڑی سے روانہ ہوسکے،مگر اس کے بعد بھی سیکڑوں آدمی اسٹیشن پر پہنچ گئے ،چنانچہ دوسری اسپیشل ٹرین چھوڑی گئی اور قریب ڈیڑھ ہزار آدمی جنازہ کے وقت تک پہنچ سکے۔ حضرت نے ہر چیز کاانتظام پہلے سے کر رکھا تھا، یعنی ایک زمین لے کر اس کو تکیہ یا قبرستان خاص بناکر وقف کردیا تھا ، ایک مختصر سے احاطہ کے اندر ایک زمین گھیر دی