مکاتبت سلیمان |
|
’’حکیم عبد المجید صاحب آئے تھے ،ہفتہ پورا کرکے کل واپس جارہے ہیں ،حکیم سمیع اللہ (حضرت کے خلیفہ حقداد خاں صاحب لکھنوی کے صاحبزادہ )رہیں گے، علاج ان ہی دونوں کا ہے ،افاقہ کی صورت نہیں ،دست بہت ہیں ،ضعف بیحد ہے، سانس میں تکلیف ہے ،بائیں پاؤں میں کل سے سخت درد ہے ہم سب پریشان ہیں ۔‘‘ جمیل احمد ،دوشنبہ لکھنؤ میں ثقات سے جو حاضر تھے معلوم ہوا کہ دو شنبہ کے روز دست زیادہ آئے، ظہر کے بعد ضعف زیادہ محسوس ہوا ،عصر کے بعد مولانا شبیر علی صاحب کو (جو حضرت ؒ کے بھتیجے اور تمام امور خانقاہ و مدرسہ کے مہتمم و متولی ّ تھے) یاد فرمایا،اطلاع دی گئی کہ وہ سہارنپور دوالینے گئے ہیں ، محل خورد سے فرمایا کہ امانتوں کا صندوقہ اٹھالو، (امانتیں وہ رقمیں تھیں جن کو اہل خیر حضرت کو وکیل بنا کر کارِ خیر کے لئے بھیجتے تھے) مختلف تھیلیاں مدوار ہوتی تھیں ،ایک تھیلی میں بی بی صاحبہ نے عرض کیا کہ پانچ روپے ہیں ،فرمایا ،چھ ہوں گے ،چنانچہ ہاتھ ڈالا تو ایک روپیہ کا نوٹ اور نکلا ،ارشاد فرمایا کہ یہ کل رقمیں ان کے مالکوں کوواپس کردی جائیں ،یہ اس مسئلہ شرعی پر عمل تھا کہ وکیل یا مؤکل کی موت کے بعد وکالت ختم ہوجاتی ہے اور ملک ِ مالک کے تصرف میں واپس جانی چاہیئے۔ مولانا ظفر احمد صاحب کو کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ایک کاغذ پر یہ بشارت نامہ لکھ کر وَجَعَلْنَاھَا وَابْنَھَا اٰیَۃً لِّلْعَالَمِیْن(خاکسار کو بعد کو مولانا ظفراحمد صاحب کے والانامہ سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ وفات سے دو دن پہلے کا ہے)۔ مغرب کے بعد حالت اور زیادہ نازک ہوئی ،سانس کی تنگی محسوس ہوتی تھی ،مولانا ظفر احمد صاحب نے ڈھاکہ واپس جاکر لکھا۔ ’’آپ تھانہ بھون سے بھوپال گئے اور یہاں سخت بھونچال آگیاکہ حضرت حکیم الامۃ قدس اللہ سرہٗ نے دارالبقا کی طرف ارتحال فرمایا۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ کادت لھاشمَّ الجبال تزول