مکاتبت سلیمان |
|
کی طرف خطاب کرکے فرمایا ان کو میں محروم کرکے بھی محروم نہیں کرتا ہوں ،ایک سبق دے رہا ہوں ،پھر اسی معنی کاخواجہ صاحب کا ایک مصرعہ پڑھا ،پھر ارشاد فرمایاکہ ان کے ناکام واپس جانے کا یہ اثر ہوگا کہ اس کو سن کر دوسرے لوگ آنے سے رک جائیں گے اور اس سے ان کو فائدہ پہنچے گا‘‘غرض یہ تھی کہ لوگ اس بے کار کی زحمت اور تکلیف سے خود بھی بچیں اور حضرت کو بھی ہجوم سے بچائیں ۔ ایک روز بعد مغرب یاد فرمایا اور مشور ہ چاہا کہ ’’اشتہا مطلق نہیں اور ضعف بڑھ رہاہے،گو میں اس کے نتیجہ پر راضی ہوں ،مگر بہر حال اگر اس کی تدبیر کوئی ضروری ہو تو کرنا چاہئے ۔‘‘اس اثناء میں خیال ظاہر فرمایا کہ ’’لکھنؤ میں ڈاکٹر سید عبد العلی صاحب (ناظم ندوہ)کو(جومزاج شناس تھے )لکھا جائے کہ صرف اشتہاء پیدا ہونے کے لئے کوئی نسخہ تجویز کریں ۔‘‘خاکسار نے عرض کی کہ حضرت چارروز خط کے جانے میں اور چار روز آنے میں لگیں گے ،اتنی دیر بہت ہے ،پھر رائے ہوئی کہ سہارنپور میں کوئی اچھا ڈاکٹر ہو تو بلایا جائے ،مگر دوسرے ہی دن مولوی محمد حسن صاحب اور دوسرے احباب لکھنؤ کا خط آیا کہ حکیم عبد المجید صاحب لکھنوی جن کے علاج سے پہلے بھی فائدہ ہوچکاتھا ،اگر اجازت ہوتو ان کو لے کرحاضرہوں ،چنانچہ اجازت کا خط لکھا گیا،طالبین کے خطوط بدستور آرہے تھے، لوگ حسب دستور ہدایا منی آرڈر سے بھیج رہے تھے، مگر شدت احتیاط بدستور قائم تھی اور وہ واپس ہورہے تھے مگر اخلاص ومحبت کے سرمایہ کو بہت خوشی سے قبول فرمالیتے تھے، ایک قریب کے نواب صاحب کی ایک رقم آئی تو قبول فرماکر ارشاد ہوا کہ ان لوگوں کا ممنون ہوں کہ وہ دے کر الٹے خود ممنون ہوتے ہیں کہ اس نے (اپنی ذات کی طرف اشارہ) قبول کیا، ایک غریب نے کچھ پیش کیا تو اللہ اکبر اس کو آنکھوں سے لگایا۔ یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے حضرت گو ضبط ،صبر اور استقامت سے اپنی تکالیف ظاہر نہیں فرماتے تھے اور نہ