مکاتبت سلیمان |
|
حصول تربیت کی آرزو ہے، آپ اب بھی فرمائیں کیا ارشاد ہے، عقائد میں پورا اتفاق ہے، فقہیات میں قدرے اختلاف ہے مگر جانب ثانی سے اس میں بھی توسع ہے تحریر میں بھی اور زبانی بھی، بھائی قوم وعلم کی خدمت تو ہوچکی، کچھ اپنے نفس کی خدمت کرلینے دیجئے، راہ ابھی کھلی نہیں مگر آثار معلوم ہوتے ہیں ، مشورہ سے مدد فرمائیے۔ ۱؎ حق تعالی کا قانون ہے کہ وہ سچے عاشق طالب صادق کی طلب اور اس کی محنت ضائع نہیں فرماتے ،جو کوشش کرتا ہے اس کے لئے غیب سے اسباب پیدا فرمادیتا ہے ، قدرتی وتکوینی اسباب کے تحت حضرت سید صاحبؒ کا حضرت اقدس حکیم الامت تھانویؒ سے ربط ہوا، اور جس نعمت کے حصول کے لئے آپ حاجی امداد اللہ صاحبؒ مہاجر مکی سے تعلق نہ ہوسکنے پر حسرت فرماتے تے وہ باطنی نعمت اور نورِ نبوت آپ کو خانقاہ اشرفیہ تھانہ بھون سے حاصل ہوئی ، اس کی ابتداء کیسے ہوئی اور قدرت نے تکوینی اسباب کے تحت سید صاحب کو وہاں تک کیسے پہنچایا پھر حضرت سید صاحبؒ نے کس طرح علمی روحانی اور احسانی مدارج طے کئے اس کی تفصیل آپ کی اسی مجموعہ میں انشاء اللہ ملے گی۔ سید صاحبؒ اور حضرت اقدس حکیم الامت تھانویؒ کی علمی واصلاحی مکاتبت کی پوری تفصیل متفرق رسائل وکتب میں منتشر تھی، بعض خطوط احقر کو جرائد کی پرانی فائلوں میں مظاہر علوم سہارنپور ، ہردوئی اور ندوۃ کے کتب خانہ میں بڑی جستجو کے بعد مل سکے، احقر نے ان سب کو یکجا کیا اور تاریخ اور خطوط کے تسلسل کا اعتبار نہ کرتے ہوئے افادیت کے پیش نظر مضامین کے ربط اور ایک عنوان کے تحت مضامین یکجا کرنے کا اہتمام کیا، بسا اوقات ایک خط میں تین مضمون مذکور تھے، ان کو علیحدہ علیحدہ مضمون کے مناسب موقع پر درج کردیا، بعض خطوط میں سوال جواب تو تھا لیکن اس جواب پر سوال یاسوال پر استفسار اور اس کا جواب، یاسابقہ جواب کا تکملہ وتتمہ بعد کے خطوط اور دوسرے رسائل میں ہوتا تھا، قاری کو مطالعہ کے ------------------------------ ۱؎ مکتوبات سلیمان۔ ص: ۱۰۶،ج:۲