مکاتبت سلیمان |
’’تاریخ میں کوئی ہستی مرشد مربی ومصلح ان سے بر تر نظر نہیں آتی، غزالی کا مرتبہ بے شک بہت بلند ہے، بلکہ یہ کہنے دیجئے کہ امام تھانویؒ کے زمانے سے قبل انہیں کا مرتبہ بلند ترین ہے لیکن تربیت السالک وغیرہ میں جیسی جیسی گتھیاں سلجھ کر آگئی ہیں ان کے بعد امام تھانویؒ کا پلہ کچھ بھاری ہی نظر آئے گا۔ ۱؎ لیکن پیر ومرید کا یہ اصلاحی تعلق ایسا نہیں ہے کہ محض رسمی طور پر احباب و متعلقین کی ترغیب وتلقین سے قائم کر لیا جائے، انتخاب شیخ کے لئے بڑی بصیرت و تحقیق اور کامل مناسبت کی ضرورت ہوتی ہے، حضرت سید صاحبؒ باوجود یکہ خود بھی اس کی ضرورت محسوس فرماتے تھے او آپ کے رفقاء احباب ومتعلقین تھانہ بھون رخ کرنے کی ترغیب بھی دیتے تھے لیکن حضرت سید ساحبؒ نے اس میں عجلت نہ فرماکر پوری تحقیق ومشورے اور دعاء واستخارہ اور منجانب اللہ غیبی اشارے (منامات) کے بعد ہی حضرت اقدس تھانویؒ کا انتخاب فرمایا، یہی وجہ ہے کہ شدید تقاضے کے باوجود تھانہ بھون پہنچتے پہنچتے آپ کو دس سال کا عرصہ لگ گیا، جناب علامہ سید صاحبؒ خود تحریر فرماتے ہیں : ’’کامل دس برس تک چپکے ہی چپکے ہندوستان سے عرب تک نظر دوڑاتا رہا لیکن کوئی ہستی ایسی نظر نہ آتی تھی جو میرے درد کی درد مانی کر سکے، بعض بزرگ ملے بھی تو طبیعت کو ان سے مناسبت نہیں ہوئی بار بار یہی خیال آتا تھا کہ کاش حضرت حاجی امداد اللہ صاحب حیات ہوتے۔‘‘ ۲؎ حضرت سید صاحبؒ اپنے قدیم مخلص دوست مولانا عبد الماجد صاحبؓ دریا آبادی کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : ’’مولوی اویس صاحب کی معرفت آپ کا ایک والا نامہ ملا تھا جس میں مولانا تھانویؒ سے متعلق آپ سے مشورہ کا مشورہ تھا، مشورہ کا ہر وقت محتاج ہوں ۔۔۔۔۔۔ صرف ------------------------------ ۱؎ معاصرین ۔ص:۲۱ ۲؎ تذکرہ سلیمان ص:۹۳