مکاتبت سلیمان |
|
عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ اردو تفسیریں صرف عوام اردو خوانوں کے لئے علماء لکھتے ہیں ، یہی خیال مولانا کی اس تفسیر کے متعلق بھی علماء کو تھا لیکن ایک دفعہ اتفاق سے مولانا کی یہ تفسیر مولانا انور شاہ صاحب نے اٹھا کر دیکھی تو فرمایا کہ میں سمجھتا تھا کہ اردو میں یہ تفسیر عوام کے لئے ہوگی، مگر یہ تو علماء کے دیکھنے کے قابل ہے، خود میرا خیال ہے کہ قدیم کتب تفسیر میں راجح ترین قول مولانا کے پیش نظر رہا ہے، ساتھ ہی ربط آیات وسور کا ذوق مولانا کو ہمیشہ رہا ہے، اور اس کا لحاظ اس تفسیر میں بھی کیا گیا ہے، مگر چونکہ ربط آیات کے اصول سب کے سامنے یکساں نہیں ، اس لئے وجوہِ ربط میں قیاس اور ذوق سے چارہ نہیں ، اس لئے ہر مستند ذوق والے کے لئے اس میں اختلاف کی گنجائش ہے، اسی طرح مفسرین کے مختلف اقوال میں سے کسی قول کی ترجیح میں زمانہ کی خصوصیات اور ذوق ووجدان کا اختلاف بھی امر طبعی ہے، اس لئے اگر کلام سلف کے اصول متفقہ سے دور نہ ہو تو تنگی نہ کی جائے۔ (۳) چونکہ مسلمانوں پر شفقت اور ان کی اصلاح کی فکر مولانا پر بہت غالب تھی، اس لئے وہ ہمیشہ ان کو گمراہیوں سے بچانے میں بجان ودل ساعی رہتے تھے، اردو میں شاہ عبد القادر صاحب اور حضرت شاہ رفیع الدین صاحب کے جو ترجمے شائع تھے، وہ بالکل کافی تھے، مگر نئے زمانہ میں پہلے سر سید نے بضمن تفسیر اور شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد صاحب نے اپنے نئے اردو ترجمے شائع کئے تو انہوں نے پہلی دفعہ یہ کوشش کی کہ اپنے جدید عقائد کو پیش نظر رکھ کر ترجمے کریں اور اولین توجہ زبان کی طرف رکھیں اور اقوال سلف کی پرواہ نہ کریں ، اس طرز عمل نے علماء کو مضطرب کردیا اور ان کو ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کی اصلاح کی جائے، مولانا نے اپنا ترجمہ اسی ضرورت سے مجبور ہوکر کیا، مگر اسی پر کفایت نہیں کی ، بلکہ مولوی نذیر احمد صاحب مرحوم کے ترجمہ کو بغور پڑھا، اور اس کے اغلاط پر نشان دے کر ایک رسالہ اس ترجمہ کی اصلاح پر لکھا جس کا نام ’’اصلاح ترجمہ دہلویہ ‘‘ہے۔