مکاتبت سلیمان |
|
سرفراز ہوتے رہے، اور اسی طرح بعد کے دوروں میں یہ سلسلہ جاری رہا، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ علوم نبوت تو کسی درجہ میں حاصل کرتے ہیں لیکن نورِ نبوت کی ان کو ہوا بھی نہیں لگتی، قال تو ہے حال نہیں ، یعنی علوم نبوت کے ساتھ اس نعمت کے حصول کی کوشش نہیں کرتے جو سینہ بسینہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے منتقل ہوکر بزرگوں کو حاصل ہوئی ، جس کو باطنی نسبت اور تعلق مع اللہ اور احسانی کیفیت بھی کہا جاتا ہے ، آج کا علمی طبقہ علوم نبوت تو حاصل کرتا ہے لیکن نورِ نبوت سے بالکل نا آشنا ہوتا ہے اسی لئے آج ان جیسے کام کے افراد تیار نہیں ہوتے اور آج رازی وغزالی پیدا نہیں ہوتے‘‘ ۱؎ یہی وہ حقیقت ہے جس نے حضرت سید صاحب کے اندر ایک اضطرابی کیفیت پیدا کردی تھی وہ علمی مدارج طے کرر ہے تھے لیکن ساتھ ہی نور نبوت اور احسانی کیفیت کے حصول کے لئے فکر مند رہتے تھے،اور بڑی حسرت سے اس بات کا اظہار کرتے اور افسوس فرماتے تھے کہ میں حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ سے کسب فیض نہیں کر سکا، حضرت حاجی صاحبؒ سے ان کو غایت درجہ محبت و عقیدت ا ورعظمت ومناسبت تھی ۔ حضرت سید سلیمان ندویؒ جیسے متبحر علامہ الدھر کے لئے شیخ ومرشد بھی ایسا ہی ہونا چاہئے تھا جو ان کی شایان شان پوری رہبری کر سکے اور ان کی اضطرابی کیفیت دور کر کے پیاس بجھا سکے، اس شان کا مربی ومرشد کامل اس وقت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کے سوا بظاہر کوئی نظر نہ آتا تھا جن کی شان میں مولانا عبد الماجد صاحب دریا آبادی تحریر فرماتے ہیں : ------------------------------ ۱؎ افادات صدیق۔