مکاتبت سلیمان |
|
دینی عقاید واعمال کی ہر چیز پر مردنی چھاگئی تھی ،اور جہاں دین کا کچھ خیال زندہ تھا ،شکوک و شبہات کی کثرت و شدت نے اس پر عرصۂ حیات تنگ کررکھا تھا ۔ ایک پرانے قصبہ کی ایک کہنہ مسجد کے ایک گوشہ میں ایک دوربین زندہ دل مردِ درویش بیٹھا ہوا مسلمانوں کے سارے احوال اوران کی زندگی کے ہر شعبہ پر نظر ڈال کر حق و باطل ،نیک وبد اورصحیح و غلط کے درمیان تفرقہ کی لکیر بنانے میں مصروف تھا،اس کے سامنے دین کی صحیح تمثال تھی اور اس کو دیکھ دیکھ کر موجودہ مسلمانوں کی زندگی کی تصویر میں جہان جہاں غلطیاں تھیں و ہ ان کو درست کرنے میں مشغول تھااس نے پوری زندگی اس میں صرف کی کہ مسلم کی تصویر حیات کو اس شبیہ کے مطابق بنائے جو دین حق کے مرقع میں نظر آتی ہے ۔ اس یقین کوجو مسلمانو ں کے سینوں میں چودہ سو برس سے نقش تھا کہ دین ہی ان کی دینی و دنیا وی دونوں ترقیوں کا کفیل ہے لیکن جس کو تعلیم جدید نے یورپ کی نقالی میں شک سے بدل دیا تھا اس حکیم الامت نے دوبار ہ پیدا کیا اور بتایا کہ حقیقت میں ترقی جس کی اس وقت دم بدم پکار ہے او نچے محلوں ،بھر ے خزانوں ،بیش قیمت لباسوں ،گراں بہا سامانوں ، بڑی بڑی تجارتوں اعلیٰ ملازمتوں ،اونچی تنخواہوں ، شاہانہ احتراموں ،اعزازوں اور خطابوں کانام نہیں ،بلکہ اللہ تعالی ٰ کے احکام کی تعمیل کے ساتھ بلند اخلاق ،شریف عادات اور پاک و صاف قلب کا نام ہے ،جو آب وگل سے وابستہ اور فانی کا طالب نہ ہو اور حرص و ہوا حب مال اورحب جاہ کا گرویدہ نہ ہو ،جس میں اخلاص کے ساتھ خالق کی رضا کے لئے خلق کی خدمت کا جذبہ ہو ۔ فقر و تصوف علم و فن اور تمدن و سیاست زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمان اپنی غرض و غایت اور اصول و مبادی کو چھوڑ کرہندی و عجمی و یونانی وافرنگی تصور حیات کی تقلید میں مصروف ہوگئے اور اب تک مصروف ہیں اوراسی کی رونق کو اپنے کاشانہ کی عظمت