مکاتبت سلیمان |
|
جانتے ہیں ،فقر و تصوف میں ہندی و یونانی تصورات جو گ و اشراق کی تقلید ہے ،علم و فن میں عجمی و یونانی مذاق کی پیروی ہے،تمدن وسیاست میں ایرانی ورومی رنگ کی آمیزش ہے، کیا عجیب بات ہے کہ وہ دین جو قصیریت وکسروانیت کے رنگ کو مٹانے آیا تھا اسی کے نام لیوا چالیس برس کے بعد خود ہی قیصریت وکسروانیت کے رنگ میں آہستہ آہستہ ایسے رنگ گئے کہ اس کے امراء وحکام خلفاء راشدین کی نیابت کی جگہ قیصرووکسریٰ کی جانشینی پر فخر کرنے لگے ،وہی تعیش وہی سونے چاندی اور ریشم و حریر اور طاؤس ورُ باب کی زندگی مسلمان امراء و حکام کی زندگی کا مقصد بن گیا ،بیت المال ان کا ذاتی خزانہ ہوگیا ور سلطنت ان کی موروثی ملکیت جاگیر داری اور زمین داری، اسلامی اصول کے بجائے قیصرو کسریٰ کے طرز کی پیروی جاری ہو گئی ۔ یہ تو عہد گزشتہ کا حال تھا عہد حال میں یورپ کے تمدن اور سیاست کی نقالی ہماری اسلامی سلطنتوں کا فخر ہے،ہمارے دارالسلطنتوں کے سامنے پیرس کے خاکے ہیں ،ہماری خواتین کے سامنے انگلستان و فرانس کی عریانی ورنگینی اور بے حجابی ہے ،ہمارے نوجوانوں کی نگاہوں میں رقص و سرور اور ظاہری پوشاک و وضع کی اور طرز ماند و بود میں فرنگی مآبی زندگی کی کامیابی کا سب سے اعلیٰ تخیل ہے، غرض مسلمانوں کے دل ودماغ اور ذہن وتصور سے زندگی کی وہ غایت اور حیات کا و ہ مقصد جو اسلام نے پیش کیا تھا یکسر مخفی اور پوشیدہ ہے۔ علم و فن پر غور کیجئے تو ہماری قدیم تعلیم اب تک یونان کی تقویم پارینہ کی پرستش میں اور تعلیم جدید یورپین ضلالت و گمراہی خیال کی عکاسی میں مصروف ہے ،اور سوائے تقلید و نقالی کے کوئی مجتہدانہ تصورہمارے سامنے نہیں ہے ۔ہمارے سامنے جب اعلیٰ تمدن اور اعلیٰ سلطنت داری کاتخیل آتا ہے تو یورپ کی ایک ایک سلطنت اپنی پوری ہوش ربائی اور باطل آرائی کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے اور یہ حقیقت ہمارے سامنے سے گم ہو جاتی ہے کہ اسلام کا تصور سیاست اور تصور تمدن اور تصور علم و فن اپنا خاص ہے اور