مکاتبت سلیمان |
|
پڑی اور شریعت کے معیار پر جانچ کر ہر ایک کا کھرا کھوٹا الگ کیا اور رسوم و بدعات اور مفاسدکے ہر روڑے اور پتھر کو صراط مستقیم سے ہٹا دیا، تبلیغ، تعلیم، سیاست، معاشرت، معاملات، اخلاق،عبادات اورعقائدمیں دین خالص کی نظرمیں جہاں کوتاہی نظر آئی ،اس کی اصلاح کی، فقہ کے نئے نئے مسائل اور مسلمان کی زندگی کی نئی نئی ضرورتوں کے متعلق بھی اپنے جانتے پورا سامان مہیاکردیااور خصوصیت کے ساتھ اس فن احسان وسلوک کی ،جس کا مشہور نام تصوف ہے ،تجدید کی جو دنیا میں کس مپرسی میں اور ہندستان میں بحالت غربت تھا اور جس کی تابانی پر بدعات کی ظلمت غالب آگئی تھی ،جو دوکاندار صوفیوں کے ہاتھوں کسب معاش کے فنون میں سے ایک فن کی صورت بن گیاتھااور جہاں اس کی تعلیم ہوتی تھی وہاں وہ یا محض چند فلسفیانہ خیالات کا مجموعہ ہوکر رہ گیا تھا یا اور اوراد ووظائف کے ایک نصاب کا، سلف صالح نے اس فن کے جو ابواب و مسائل منقح کرکے لکھے تھے وہ بالکل فراموش ہوگئے تھے اورخصوصیت کے ساتھ سلوک کی حقیقت اور غایت بالکل چھپ گئی تھی اور جہاں کسی قدر اس کا نام و نشان تھا وہاں علم و نظر میں وحدۃ الوجود یا وحدۃ الشہود کی ناقص تعبیر پر اور اعمال میں صرف ذکر و فکر و مراقبہ کی چند تعلیمات پر بالکلیہ قناعت تھی ،خانقاہوں میں سماع و اعراس و محافل کے سوااس کا کوئی حقیقی مظہر باقی نہیں رہاتھا،طریقت و شریعت کو دومتقابل حریف ٹھہراکر ان میں سے ایک کی توہین و تحقیر کی جارہی تھی ۔ یہ تو ان کا حال تھا جو دین کے مدعی تھے باقی عوام ،تو ان کی زندگی دین سے خالی ہوکر رسوم و بدعات کی نذر ہوگئی تھی ،مسلمان کی زندگی کے کسی گوشہ میں بھی دین اور خالص دین کا تخیل نہ تھا ،اخلاق کی تعلیم اور معاملات ،معاشرات کی تصحیح دین ِکامل کے دائرہ سے باہر ہو گئی تھی ۔ تعلیم جدید کی نئی آب و ہوا نے تفرنج اور فرنگی مآبی کا و ہ زہرپھیلا دیا تھا جس سے