مکاتبت سلیمان |
|
صدیوں سے خارج کی جاچکی تھی، اور پھر اپنے بعد اپنی روش پر تعلیم وتربیت کے لئے ڈیڑھ سو کے قریب مجازین کو چھوڑا، جو ان کے بعد بھی ان کاموں میں مصروف ہیں ، اس حلقۂ فیض میں علماء بھی داخل ہوئے ، تعلیم یافتہ بھی، عوام بھی ، غرباء بھی، امراء بھی بہت بڑے بڑے عہدہ دار بھی، زمین دار بھی ، تاجر اور سوداگر بھی اور مفلس بھی ، اس سے اس دائرہ کی وسعت کا اندازہ اب بھی کیا جاسکتا ہے، مدارس پر غور کیجئے، دار العلوم دیوبند بھی مظاہر العلوم سہارنپور بھی، دار العلوم ندوۃ العلماء بھی، یہاں تک کہ پہلا علی گڑھ کالج اور موجودہ مسلم یونیورسٹی بھی اور وہ سیکڑوں مدارس جو ہندوستان میں جگہ جگہ پھیلے ہیں ، جغرافیائی حیثیت سے غور کیجئے تو سرحد سے لے کر بنگال مدراس اور گجرات بلکہ حجاز افریقہ اور ان تمام ملکوں تک جہاں جہاں ہندوستانی مسلمان پھیلے ان کے اثرات بھی ساتھ ساتھ پھیلے ہیں ، راقم کو ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا مگر جہاں گیا یہ معلوم ہوا کہ وہ روشنی وہاں پہلے سے پہنچی ہوئی ہے، اور کوئی نہ کوئی اس روشنی سے بحمد للہ ضرور منور ہے۔ اس تعلیم وتربیت ، تصنیف وتالیف ، مواعظ وملفوظات کی بدولت عقائد حقہ کی تبلیغ ہوئی ، مسائل صحیحہ کی اشاعت ہوئی دینی تعلیم کا بندوبست ہوا، رسوم وبدعات کا قلع قمع ہوا، سنن بنوی کا احیاء ہوا، غافل چونکے، سوتے جاگے، بھولوں کا یاد آئی،بے تعلقوں کو اللہ تعالی سے تعلق پیدا ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سینے گرمائے، اور اللہ تعالی کی یاد سے روشناس ہوئے، اور وہ فن جو جوہر سے خالی ہوچکا تھا پھر شبلیؒ، جنیدؒ، اور بسطامی ؒوجیلانیؒ او رسہروردیؒ و سرہندیؒ بزرگوں کے خزانوں سے معمور ہوگیا، رحمہم اللہ تعالی، یہ وہ شان تجدید تھی جو اس صدی میں مجدد وقت کے لئے اللہ تعالی نے مخصوص فرمائی۔ ؎ ایں سعادت بزد رباز نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ۱؎ ------------------------------ ۱؎ مأخوذ از بصائر حکیم الامت ص:۲۵