مکاتبت سلیمان |
|
مقصود یہ ہے کہ زمانہ ہمیشہ حرکت میں ہے اور اس کے ساتھ ہر چیز حرکت میں ہے اس حرکت سے لوگو ں کے خیالات و اعمال میں گھٹاؤ بڑھاؤ پیدا ہوتا رہتا ہے ۔نئی نئی تحریکیں نمایاں ہوتی ہیں ، نئی نئی بدعتیں ظاہر ہوتی ہیں ،نئے نئے خیالات لوگوں کے دلوں میں جگہ پاتے ہیں ، زبان،طرزِ تعبیر،طریق استدلال میں تغیر ہوتا رہتا ہے اور یہ سب کے سب مل کر ایمانیات اور یقینیات میں شک و شبہ کی راہیں کھولتے ہیں اس لئے اس قادر مطلق نے جس دین کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہے مخصوص انسانوں کے ذریعہ دین کی حفاظت کے وعدہ کو پورا فرماتے رہتے ہیں ۔ یہ تحریف و تبدیل اور خیالات کا اتار چڑھاؤ اور اعمال کا بگاڑ ہر زمانہ میں الگ الگ راہوں سے اور انوکھے اورنت نئے دروازوں سے داخل ہوتا رہتا ہے اس لئے ہرزمانہ کا فساد عمل اور سوء ِاعتقاد ایک طرح کا نہیں ہوتا ،کبھی یہ فساد قیصری و کسروانی حکومتوں کے قاعدوں اور قانون کی راہ آیا کبھی یونانی و عجمی علوم و فنون کی صورت میں آیا، کبھی ہند و شام و مصر کے سابقہ مذہبوں کے اختلاط نے دین میں گنجلک پیدا کی ،اور کبھی کسی ملک کے رسم و رواج نے شریعت کی جگہ لے لی، کبھی غیر شرعی عصری تحریکات نے دلوں اور دماغوں کو متعفن کیا، غرض کبھی سیاست کی راہ سے کبھی علم و فن کی راہ سے ، کبھی تہذیب و تمدن کی راہ سے ، کبھی حکومت کی راہ سے ، کبھی عقل پرستی اور خردنوازی کے ذریعہ سے ،کبھی غیر دینی اقتصادی و تمدنی نظامات کے واسطہ سے ،بلکہ کبھی خود غلوئے دین اور تشدد فی الدین کی راہ سے دین میں تحریفات و بدعات پیدا ہوتے رہے ہیں ،اس لئے ہر زمانہ کے مفاسد کے لحاظ سے دین کے مجددین کا ہر عصر میں ظہور ہوتا رہاہے اور انہوں نے خدا داد قوت عمل اور ربانی محبوبِیت اور انسانی مقبولیت پاکر زمانہ کی مشکلوں کا پورا مقابلہ کرکے اصل دین کے چہرہ سے زمانہ کے گردو غبار کو صاف کیا ہے اور پھر دین کی حقیقت کو بے غبار کرکے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔