مکاتبت سلیمان |
|
سلوک کو ضلالت وگمراہی قرار دینے لگے تھے اور اس کے اصول ومسائل کو خلاف شریعت اور مخالف کتاب وسنت سمجھتے تھے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علمائے حق اور صوفیائے برحق کا مطلق وجود ہی نہ تھا، بے شبہ جابجا صحیح وصالح بزرگوں کے سلسلے قائم تھے کہیں کہیں ان کے فیوض وبرکات بھی جاری اور ان کی تعلیم وتربیت کی برکت بھی عیاں تھی، لیکن یہ جو کچھ تھا خواص کے لئے تھا اور محدود حلقوں میں تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اشخاص کی تلقین وہدایت تو ہورہی تھی مگر تدوین فن ، تربیت اصول ،تحقیق مسائل ، تالیف رسائل اور اصل سلوک کے مضامین کو کتاب و سنت کی اور سلف صالحین اور اولیائے کاملین کی تشریح وتوضیح سے ملاکر دیکھنے کے کام کہیں نہیں ہورہے تھے اور نہ خطب ومواعظ اور تحریر وتقریر کے ذریعہ عوام کے خیالات کی اصلاح کی کوشش کی جارہی تھی، اور نہ رد شبہات دفع شکوک اور رفع اوہام کے لئے کوئی سلسلہ تھا اور نہ سالکین کی ظاہری وباطنی تربیت کی کوئی ایسی درس گاہ تھی جس میں راہ کی مشکلات کو علمی وفنی طریق سے بتایا اور سکھا یا جاتا ہو اور نہ کہیں کوئی ایسی مسند بچھی تھی جہاں شریعت وطریقت کے مسائل پہلو بہ پہلو بیان ہوتے ہوں ، جہاں تفسیر وفقہ وحدیث کے ساتھ امراض قلب کے علاج کے نسخے بھی بتائے جاتے ہوں جو کتاب وسنت میں موجود ہیں جہاں ایک طرف قال اللہ وقال الرسول کا ترانہ بلند ہو اور دوسری طرف عبودیت وبندگی کے اسرار اور اتباع سنت کے رموز بھی سکھائے جاتے ہوں ، جہاں جس قلم سے احکام فقہی کے فتاوے نکل رہے ہوں ، اسی قلم سے سلوک وطریق کے مسائل بھی شائع ہورہے ہوں ، جس منبر سے نماز وروزہ اور حج وزکوۃ کے فقہی مسائل واشگاف بیان کئے جارہے ہوں اسی منبر سے روحانی حقیقت اور ان کی قلبی ادا کاری کے طریق بتائے جارہے ہوں ، اللہ تعالی نے اس صدی میں اس کام کے لئے حضرت حکیم الامت مجدد ملت (مرشدی ومولائی مولانا شاہ اشرف علی) علیہ الرحمۃ کا انتخاب فرمایا اور وہ کام ان سے لیا گیا جو چند صدیوں سے معطل پڑا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ زمانہ کا تقاضا تھا کہ اس کے مقتضیات نے جو نئی ضرورتیں پیدا کر