مکاتبت سلیمان |
|
دکاندار صوفیوں کے ہاتھوں دنیا داری اور کسب ِ معاش کے فنون میں سے ایک فن کی حیثیت میں آگیا تھا، اور جہاں اس کا وجود تھا بھی وہ یا محض چند فلسفیانہ خیالات کا مجموعہ ہو کر رہ گیا تھا یا اوراد و وظائف کے نصاب کا ، سلف ِ صالحین نے اس فن کے جو ابواب ومسائل منقح کرکے لکھے تھے وہ بالکل فراموش ہوگئے تھے اور خصوصیت کے ساتھ سلوک کی حقیقت اور غایت بالکل ہی چھپ گئی تھی اور جہاں کسی قدر اس کا نام ونشان تھا وہاں علم میں وحدۃ الوجود یا وحدۃ الشہود کی ناقابل افہام وتفہیم بلکہ ناقص تعبیر پر اور اعمال میں صرف ذکر وفکر ومراقبہ کے چند اصول پر پوری پوری قناعت تھی، بدعات نے دین کا نام اور رسوم نے سلوک وتصوف کی جگہ حاصل کر لی تھی، طریقت وشریعت کو دو متقابل حریف ٹھہرا کر ان میں ایک کو دوسرے سے گرانے کی کوشش کی جارہی تھی، عام صوفیوں کی زبانوں پر چند جاہلانہ فقرے اور چند مبتدعانہ اصول واعمال رہ گئے تھے جن کو طریقت کا نام بخشا گیا۔ صوفیانہ خانوادوں کی جہالت اور موروثی گدی نشینی کی متواتر رسم نے اللہ تعالی کی بخشش وعطایا اور مقبولیت کو بھی ایک صنعت گری کا کارخانہ بنارکھا تھا، خانقاہوں کا کام صرف اعراس وفاتحہ کا اہتمام اور سماع ورقص وقوالی کا انصرام رہ گیا تھا، مقررہ دنوں اور مہینوں میں کچھ لوگ جمع ہوکر فاتحہ خوانی کرلیں ، مٹھائی کھالیں اور ایک جگہ بیٹھ کر کسی سازندے کے ترانے پر ہُو حَق کر لیں اور زیادہ بڑھیں تو وحدۃ الوجود کی آڑ لے کر شوخی اور بے باکی اور رندی کے اشعار ومضامین پڑھ لیں اور سر دھن لیں ، چند سینہ بہ سینہ راز تھے جن کو بے سمجھے بوجھے بار بار دہرایا جارہا تھا، تصحیح عقائد وتحسین عبادت، اثباتِ سنت اصلاح اعمال اور ادائے حقوق العباد جو اصل دین اور صحیح سلوک تھا وہ ہر جگہ سے مٹ چکا تھا، علمائے ظاہر چونکہ باطن کے منکر تھے یا باطن سے ناآشنا تھے، اس لئے ان کے پند ونصائح کی حیثیت صوفیوں میں تقبیح ناشناش سے زیادہ نہ تھی، اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ چونکہ طریقت کے اصل راز سے واقف نہیں اس لئے ان کی بات سننے کے قابل نہ تھی، اور علمائے ظاہر چونکہ باطن سے منکر یا ناآشنا تھے وہ ان دکاندار صوفیوں کو دیکھ کر اصل فن