مکاتبت سلیمان |
|
یا خفی الذات محسوس العطا انت کالماء ونحن کالرحا انت کالریح ونحن کالغبار یختفی الریح و غبراہ جھار تو بہاری ماچو باغ سبز وخوش او نہان وآشکار انجشش تو چو جانی ما مثال ایں زبان این زبان از عقل دارد ایں بیاں تو مثال شادی وماخندہ ایم کہ نتیجہ شادی فرخندہ ایم جنبش ماہر دے خود اشہد است کو گواہ ذو الجلال سرمد است گردش سنگ آسیا در اضطرا اشہد آمد بر وجود جوئے آب اے بروں از دہم وقال وقیل من خاک بر فرق من و تمثیل من ان شعروں کے پڑھنے سے طبیعت میں بشاشت آئی خصوصاً اے بروں از دہم وقال قیل من ۔ اس سے ذہن ایک خاص نکتہ کی طرف متوجہ ہوا۔ یعنی یہ کہ اللہ تعالی کا مثل (بسکون وسط) محال۔ اور اس کا اعتقاد جواز کفر لیکن اس کا مثل (بفتحین) جائز اور توضیح معنی کے لئے ضروری۔ اور یہ تطبیق ہوگی درمیان لیس کمثلہ شییٔ کے (جس کو میں نے اپنے اشکال میں عرض کیا تھا) اور درمیان ولہ المثل الاعلی کے جو مولانا کے شعروں میں ہے کیا اس ہیمچدان کا یہ خیال درست ہے مقصود اس ہیچ مداں کا اپنا اظہار علم نہیں بلکہ تصحیح علم ہے، اور استفادۂ مزید اور استشفاء جدید۔ میں کیا اور میرا علم کیا ہے۔ جواب :- ماشاء اللہ بالکل صحیح جس کا رتبہ اصح سے فوق ہے ۔ لیھنکم العلم۔ اپنے علم کو ہیچ سمجھنا اور تحصیل اخلاص کے لئے اظہار کی نیت نہ ہونا۔ یہی تو مفتاح ہے علوم کی۔ رزقنی اللہ معکم۔ ۱؎ ------------------------------ ۱ ؎ النور شعبان ۱۳۶۱ھ