مکاتبت سلیمان |
|
ہے کہ اللہ تعالی تو تم کو دیکھ ہی رہے ہیں ، اور اس کا بھی مقتضاء یہی ہے کہ ایسی طرح عبادت کرو جیسا کہ اگر علم ہوجائے کہ حاکم کسی کو کام کرتے دیکھ رہا ہو تو اس وقت ایسے ہی اہتمام سے کام کیا جاتا ہے، اتنا فرق ہے کہ حاکم صرف ظاہر کو دیکھتا ہے اُس کے دیکھنے کی چیز کو سنوار کرکرتے ہیں اور اللہ تعالی ظاہر وباطن دونوں کو دیکھتے ہیں اس لئے دونوں کو درست کرنا ضروری ہوگا، بس یہ حاصل ہے حدیث کا جس کا خلاصہ یہ ہوا کہ عبادت کا کام اچھی طرح کرو، اسی لئے اس کا نام احسان ہے یعنی ’’حسن کردن عبادت‘‘ ممکن ہے کہ اضمحلال واعتلال طبیعت کے سبب مجھ سے ادا میں کمی رہ گئی ہو اس لئے ایک بزرگ کی تحقیق کا پتہ بھی دیتا ہوں شاید ان کی عبارت کے انضمام سے خوب توضیح ہوجائے، وہ بزرگ نوویؒ شارح مسلم ہیں انہوں نے کتاب الایمان کی پہلی حدیث کی شرح میں اس عبارت سے لکھا ہے۔ ۱؎ ھذا من جوامع الکلم الی قولہ فی اہتمام الخشوع والخضوع وغیر ذلک (ضمیمہ خط) مثنوی معنی یا معنوی کے جو اشعار نقل کئے گئے ہیں ، ان سے مقصود استدلال نہیں بلکہ جو دعویٰ مستقل دلیل سے ثابت ہے اس کی تائید ہے اور یہ تنبیہ قابل التزام ہے اس سے ذہول بہت سے اغلاط کا منشاء ہوسکتا ہے۔ مولانا خود مطلقاً کلام منظوم کے کسی ------------------------------ ۱ ؎ قال النووی فی شرح مسلم تحت حدیث الاحسان ’’ان تعبد اللہ کانک تراہ‘‘ لانا لو قدرنا ان احدنا قام فی عبادۃ وھو یعاین ربہ سبحانہ وتعالی لم یترک شیئاً مما یقدر علیہ من الخضوع والخشوع وحسن السمت واجتماعہ بظاہرہ وباطنہ علی الاعتناء بتتمیمہا علی احسن وجوھھا الا اتی بہ، فقال صلی اللہ علیہ وسلم اعبد اللہ فی جمیع احوالک کعباد تک فی حال العیان فان التتمیم المذکور فی حال العیان انما کان لعلم العبد باطلاع اللہ سبحانہ وتعالی علیہ فلا یقدم العبد علی تقصیر فی ھذا الحال للاطلاع وھذا المعنی موجود مع عدم رویۃ العبد فینبغی ان یعمل بمقتضاہ، فمقصود الکلام البحث علی الاخلاص فی العبادۃ ومراقبۃ العبد ربہ تبارک وتعالی فی اتمام الخشوع والخضوع وغیر ذلک۔ (شرح مسلم ج: ۱ص: ۱۵۸ مصری)